امریکی شہری جارج فلائیڈ کی موت کے بعد گذشتہ تقریبا 10 دنوں سے امریکہ میں احتجاج جاری ہے۔ یہاں پُر تشدد مظاہرین بھی ہیں جو دوکانیں لوٹنے، گاڑیاں جلانے اور الٹنے کا کام مسلسل کر رہے ہیں۔
کچھ اسی طرح کے مظاہرین کو نیویارک سٹی کی پولیس نے گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل سینکڑوں مظاہرین نے شہر میں پُر امن احتجاجی مارچ میں شرکت کی تھی۔
نیو یارک پولیس نے بتایا کہ انہوں نے ہجوم منتشر ہونے سے قبل اپر ایسٹ سائڈ کے ایک چوراہے پر تقریبا 60 افراد کو گرفتار کیا ہے۔
احتجاج کرنے والے ایک نوجوان نے بتایا کہ 'ہم یہاں صرف جارج فلائیڈ کے لیے نہیں، بلکہ ایرک گارنر کے لیے بھی باہر نکلے ہیں، جو بالکل جارج فلائیڈ کی طرح ہی پولیس کے ہاتھو یہ کہتے ہوئے مارے گئے تھے کہ 'میں سانس نہیں لے سکتا' جس طرح جارج فلائیڈ نے کہا تھا'۔
منگل کی رات احتجاج سے وابستہ الزامات کے تحت تقریبا 280 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا ، جبکہ اس سے ایک روز قبل 700 لوگوں کی گرفتاری ہوئی تھی۔
واضح رہے کہ امریکی ریاست مینی سوٹا کے مینی پولیس شہر میں 25 مئی کو امریکی پولیس نے 46 سالہ سیاہ فام جارج فلائیڈ کے گلے پر 8 منٹ 46 سکنڈز تک اپنے گھٹنوں کو رکھ کر گلا گھونٹ دیا تھا۔
گلا گھونٹے جانے کے وقت جارج فلائیڈ کے دونوں ہاتھوں میں ہتھ کڑی تھی اور ان کے منہ سے 'میں سانس نہیں لے سکتا' کی آواز بھی سنی گئی تھی
اس حادثے کے بعد امریکہ کے متعدد ریاستوں میں مسلسل مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک مثلا برطانیہ اور ایران وغیرہ میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔
حالانکہ ملزم پولیس اہلکار ڈیریک چاوون کو گرفتار کر کے ان کے خلاف قتل کا مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے، تاہم امریکہ میں مظاہروں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔