22 امریکی ریپبلکن سینیٹرز کے ایک گروپ نے منگل کو سینیٹ میں ایک بل پیش کیا تاکہ طالبان اور اس کی مدد کرنے والی تمام غیر ملکی حکومتوں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس بل کو ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جم ریش نے ’افغانستان کاؤنٹر ٹیررازم، اوور سائٹ اینڈ اکاؤنٹیبلٹی ایکٹ‘ متعارف کرایا۔ بل میں امریکی محکمہ خارجہ سے 2001-2020 کے درمیان طالبان کی حمایت میں پاکستان کے کردار کے بارے میں رپورٹ طلب کی گئی ہے۔
یہ بل وزیر خارجہ سے وادی پنجشیر میں افغان مزاحمت کے خلاف طالبان کے حملے میں پاکستان کی حمایت کے بارے میں بھی رپورٹ کا مطالبہ کرتا ہے، اس میں طالبان کو محفوظ پناہ گاہوں، مالی اور انٹیلیجنس مدد، طبی ساز و سامان، تربیت اور تکنیکی یا سٹریٹجک رہنمائی کا معاملہ بھی شامل ہو اور امریکی انتظامیہ سے ان معاملات کی تحقیقات کے بعد ’180 دن میں پہلی رپورٹ‘ پیش کرنے کو کہا گیا ہے۔
جم ریش نے سینیٹ میں بل پیش کرنے کے بعد کہا "ہم افغانستان سے صدر جو بائیڈن انتظامیہ کے لاپرواہ انخلا کے سنگین اثرات کو دیکھتے رہیں گے۔" نہ جانے کتنے امریکی شہری اور افغان اتحادی طالبان کے خطرے کے درمیان افغانستان میں چھوڑ دیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں امریکہ کے خلاف ایک نئے دہشت گردانہ خطرے کا سامنا ہے جبکہ طالبان افغان لڑکیوں اور عورتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے تسلیم کرانا چاہتا ہے۔ بل میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی ، طالبان کے قبضے میں لیے گئے امریکی آلات کو ٹھکانے لگانے، طالبان اور افغانستان میں دیگر دہشت گرد گروہوں پر پابندیوں اور منشیات کی اسمگلنگ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔
بل میں سب سے اہم بات یہ ہے جس میں ان عناصر پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے جن پر طالبان کو مدد فراہم کرنے کا الزام ہے اور اس میں بیرونی حکومتیں بھی شامل ہیں اور پاکستان کا اس میں بالخصوص نام لیا گیا ہے۔