ناسا کے مطابق ٹیلی اسکوپ کو یوروپی خلائی ایجنسی آریان فائیو کے راکٹ کے ذریعے جنوبی امریکہ میں فرانسیسی کالونی فرنچ گیانا سے روانہ کیا گیا۔ اسے زمین سے 16 لاکھ کلومیٹر کی بلندی پر نصب کیا جائے گا۔
رپورٹس کے مطابق اپنی تحقیق کے دوران یہ مشن مختلف سیاروں، سیارچوں اور خلا میں دیگر مقامات پر زندگی کی تلاش اور تحقیق کا کام کرے گا۔
اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچنے میں 30 برس کا عرصہ لگا ہے اور اسے 21 ویں صدی کے سب سے بڑے سائنسی منصوبوں میں سے ایک قرار دیا جارہا ہے۔
سائنسدانوں کو امید ہے کہ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ James Webb Space Telescope خلا میں ان ستاروں کو ڈھونڈ پائے گی جو ساڑھے 13 ارب سال پہلے کائنات میں سب سے پہلے روشن ہوئے۔
واضح رہے کہ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ امریکی خلائی ادارے ناسا، یوروپی خلائی ادارے ’ایسا‘ اور کینیڈین خلائی ادارے سی ایس اے کا 10 ارب ڈالر کی لاگت کا مشترکہ منصوبہ ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ Joe Biden on James Webb Space Telescope کے کامیاب لانچ پر سب کو مبارکباد دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ناسا اسپیس ایپ چیلنج میں اے ایم یو کی ٹیم فاتح
بائیڈن نے ہفتہ کو ٹویٹر پر کہاکہ "نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) اور ہر ایک کو مبارکباد جس نے آج جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کو کامیابی سے لانچ کیا۔ ویب طاقت کی ایک بہترین مثال ہے، جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ اگر ہمارے خواب بڑے ہوں تو ہم کیا کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔"
صدر نے کہا کہ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کا منصوبہ بہت پرخطر کام تھا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جتنا زیادہ خطرہ ہوتا ہے پھل بھی اتنا بڑا ملتا ہے۔
ویب ناسا کی طرف سے تیار کی گئی اب تک کی سب سے بڑی اور طاقتور خلائی سائنس دوربین ہے۔ یہ 6.5 میٹر کے پرائمری میرر کے ساتھ بڑی انفرا ریڈ دوربین نظام شمسی کے اندر سے لے کر ابتدائی کائنات میں سب سے دور دیکھنے کے قابل کہکشاؤں تک کائناتی تاریخ کے ہر مرحلے کا مطالعہ کرے گی۔
ناسا کے مطابق ویب براہ راست خلا اور وقت کے ایک حصے کا مشاہدہ کرے گی جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ یہ اس دور کا پتہ لگائے گی جب 13.5 بلین سال پہلے ستارے اور کہکشائیں بنی تھیں۔
واضح رہے ویب ایک بین الاقوامی پروگرام ہے جس کی قیادت ناسا نے یورپی خلائی ایجنسی اور کناڈا کی خلائی ایجنسی کے تعاون سے کی ہے۔
یو این آئی