عدالت نے گزشتہ فیصلے کے مطابق اسانجے کی صحت سے متعلق مسئلوں کی وجہ سے وہ بیلمارس جیل سے ویڈیو کال کے ذریعہ ہی سماعت میں حاضر ہوں گے۔
کچھ دن پہلے اسانجے کے والد جان شپٹن نے کہا تھا کہ اسانجے کی حالت کافی خراب ہے اور انہیں بہتر علاج کی ضرورت ہے۔
شپٹن نے کہا،'اسانجے کی حالت ٹھیک نہیں ہے اور جیل میں کافی دنوں سے رکھے جانے کی وجہ سے اس کی حالت بےحد خراب ہوتی جارہی ہے۔ہمارا خیال ہے کہ اگر حالات میں تبدیلی کی جاتی ہےی تو اس کی حالت میں بہتری ہوسکتی ہے'
انہوں نے کہا کہ 'اسانجے کو برطانیہ کی جیل میں طبی سہولت مہیا کرائی جارہی ہے لیکن ان کے وکیلوں کا خیال ہےکہ طبی سہولت اسانجے کی پسند کی ہونی چاہئے تاکہ بہتر علاج کیاجاسکے۔'
لندن کے ڈکواڈور سفارت خانے سے نکالے جانے کے بعد اسانجے کو 11اپریل 2012 میں لندن میں گرفتار کرلیاگیا تھا اور تب انہیں 50ہفتے کی سزا سنائی گئی تھی۔اس کے بعد سے معاملے کی مسلسل سماعت چل رہی ہے لیکن وہ امریکہ کو حوالگی کرنے کی مخالفت کررہے ہیں۔
واضح رہے کہ اسانجے پر سویڈن میں ایک خاتون کے ساتھ عصمت دری کا الزام عائد کیاگیا تھا۔امریکہ نے اسانجے کی حوالگی کےلئے برطانیہ سے اپیل بھی کی ہے اور انہیں امریکہ کو سونپنے کی بات بھی کہی جارہی ہے۔
دراصل اسانجے سرخیوں میں تب آئے تھے جب سنہ 2010 میں انہوں نے کئی خفیہ سیاسی دستاویزوں کو انٹرنیٹ پر عام کیاتھا،جس میں افغانستان اور عراق میں امریکی فوج کے ذریعہ کئےگئے جنگی جرائم سے متعلق دستاویز بھی شامل تھے۔