اردو

urdu

ETV Bharat / international

یو این ایچ آر سی میں بھارت کا پاکستان - ترکی کو دوٹوک جواب

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل میں جموں و کشمیر سے متعلق ترکی کی طرف سے دیئے گئے ریفرنس کے جواب میں بھارت نے دو ٹوک لفظوں میں ترکی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بھارت کے اندرونی معاملات پر تبصرہ کرنے سے باز رہے اور جمہوری طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات استوار کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

بین الاقوامی تنظیموں
بین الاقوامی تنظیموں

By

Published : Sep 16, 2020, 8:33 AM IST

جنیوا میں بھارت کے فرسٹ سکریٹری پیون بڈھے نے کہا کہ ہم او آئی سی کے ذریعہ جموں و کشمیر سے متعلق ریفرنس کو مسترد کرتے ہیں کیوں کہ اول روز سے ہی ہمارا موقف ہے کہ جموں و کشمیر کا پورا علاقہ بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے۔

او آئی سی نے خود اپنے ایجنڈے کو پامال کرنے کے لیے پاکستان کو اس کا غلط استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ او آئی سی کے اراکین کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ پاکستان کو ایسا کرنے کی اجازت دینا ان کے مفاد میں ہے یا نہیں۔

بھارت نے ہیومن رائٹس کونسل میں بھی پاکستان سے بات کی اور جواب میں بھارت کے موقف کی وضاحت فرسٹ سکریٹری بڈھے نے یہ کہہ کر پیش کی کہ یہ پاکستان کی عادت بن چکی ہے کہ وہ اپنے مفاد پرست مقاصد کے لیے من گھڑت داستانوں سے بدنام کرنے کی کوششیں کرتا رہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز بن چکا ہے، کس بھی ملک کو انسانی حقوق کو پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی بلکہ اس کا مواخذہ کیا جانا بھی ضروری ہے۔

بھارتی سکریٹری نے کہا کہ یہ تعجب کی بات ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم جموں و کشمیر میں پس پردہ جنگ چھیڑنے کے لیے نوجوانوں کو تربیت فراہم کرا رہے ہیں اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

بھارت نے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں ہو رہے مظالم کے معاملات بھی اٹھائے۔ بھارت نے پاکستان میں لوگوں کی آوازوں کو دبانے اور صحافیوں پر حملوں کا بھی ذکر کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہزاروں سکھوں، ہندوؤں اور عیسائی اقلیتوں کی خواتین اور لڑکیوں کو اغواء کر کے جبراً شادیوں اور مذہب کی تبدلی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

بھارت کے فرسٹ سکریٹری نے یہ بھی کہا کہ بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعہ پاکستان کو ایک ایسے ملک کی حیثیت سے بارہا باور کرایا گیا ہے جہاں صحافیوں کو قتل کر دیا جاتا ہے اور ان کے قاتل آزاد گھوم رہے ہوتے ہیں۔ ان کے خلاف حکومت پاکستان کوئی کاروائی نہیں کرتی۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details