تین اعلیٰ بھارتی سفاتکاروں نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات چیت میں بتایا کہ گزشتہ سال وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکی شہر ہوسٹن میں منعقدہ جلسے میں مدعو کرنے اور اُن کی دوسرے مرحلے کی انتخابی جیت کے لئے 'اب کی بار ٹرمپ سرکار' کا نعرہ بلند کرنے کے باوجود، نئی امریکی سرکار، یعنی ڈیموکریٹ پارٹی کے جو بائیڈن کی انتظامیہ، جو اگلے سال وہائٹ ہاوس میں چارج سنبھالے گی، کے بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔
بھارت میں کلیدی حزبِ اختلاف انڈین نیشنل کانگریس، نے وزیر اعظم مودی کو گزشتہ سال 'ہوڈی مودی' تقریب میں 'اب کی بار ٹرمپ سرکار' کا نعرہ بلند کرنے پر ہدف تنقید بنایا تھا۔
جو بائیڈن کی جیت پر ردعمل
بی جے پی کے سینئر لیڈر رام مادھو نے ان خدشات کو مسترد کر دیا ہے کہ دو لیڈروں یعنی وزیر اعظم مودی اور صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے آپسی تعلقات کے نتیجے میں جو بائیڈن کی زیر قیادت انتطامیہ کے ساتھ بھارت کے تعلقات متاثر ہوں گے۔
وزیر اعظم نریندر مودی واحد عالمی لیڈر نہیں ہیں، جنہیں وہائٹ ہاوس میں آنے والی نئی انتظامیہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرنے کا مسئلہ درپیش ہوگا بلکہ دیگر کئی عالمی لیڈروں جن میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو، برازیل کے صدر جیئر بولسونارو اور بعض یورپی لیڈروں کو بھی نئی امریکی انتظامیہ کے تناظر میں اپنی خارجہ پالیسی کو ایڈجسٹ کرنا ہوگا۔
کئی اعلیٰ سفارتکاروں اور خارجہ پالیسی کے ماہرین نے ان خدشات کو مسترد کردیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ میں بھارت امریکا تعلقات متاثر ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔
بھارتی سفاتکار میرا شنکر، جو امریکی صدر بارک اوبامہ کے دورِ اقتدار میں امریکا میں بھارت کی سفیر رہ چکی ہیں، کا کہنا ہے، ’’میرے خیال سے امریکا میں دونوں پارٹیوں رہپبلیکن اور ڈیموکریٹس میں اس بات پر اتفاق ہے کہ امریکا کو بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھانے ہیں، اسلئے امریکی سرکار اس بات سے قطع نظر کہ بھارت میں کس کی حکومت ہے، اس کے ساتھ کام کرے گی۔‘‘
سفارتکار راجیو بھاٹیہ، جو جنوبی افریقہ، میکسکو، میانمار اور کینیا میں بطور بھارتی سفیر اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی اور صدر ٹرمپ کے درمیان آپسی تعلقات، امریکی انتطامیہ کے ساتھ بھارت کے رشتے متاثر نہیں کریں گے۔ کیونکہ دونوں ممالک کے مفادات اُنہیں ایک دوسرے کے ساتھ رشتے استوار کرنے پر مجبور کریں گے۔‘‘ بھاٹیہ کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا وزیر اعظم مودی کےلئے ضروری تھا کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کچھ مسائل تھے۔ مودی کی جانب سے ٹرمپ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کا فائدہ ملا ہے۔ بھارت اور چین کے سرحدی تناو کے دوران امریکا بہت معاون رہا ہے۔
سفارتکار وشنو پرکاش، جو خارجہ امور کے ماہر ہیں، کا کہنا ہے کہ ہمیں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ دونوں ملکوں کے قریبی تعلقات دونوں ملکوں کے مفاد میں ہیں۔ خاص طور سے اس صورتحال میں جب دونوں ممالک کو چین کی جانب سے یکساں جارحیت کا سامنا ہے۔
صدر ٹرمپ کا اعتماد حاصل کرنا کافی مشکل تھا
سفارتکار میرا شنکر کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کا اعتماد حاصل کرنا کافی مشکل تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب جنوری 2016ء میں صدر ٹرمپ نے حکومت سنبھالی تو اُس وقت مودی سرکار کو صدر ٹرمپ کا اعتماد حاصل کرنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کیونکہ وزیر اعظم مودی کو سابق ٓصدر بارک اوبامہ کا قریبی تصور کیا جاتا تھا۔ جنوری 2015ء میں وزیر اعظم مودی کی دعوت پر اُس وقت کے امریکی صدر بارک اوبامہ نے یوم جمہوریہ کی تقریب میں شرکت کی تھی۔
میرا شنکر نے ای ٹی وی بھارت کو مزید کہا، ’’ صدر ٹرمپ کے ابتدائی ایام میں ہمیں صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کےلئے وقت حاصل کرنے اور اُن کی دعوت حاصل کرنے میں بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ صدر ٹرمپ سمجھتے تھے کہ وزیر اعظم مودی صدر اوبامہ کے بہت قریبی رہے ہیں۔‘‘
وشنو پرکاش، جو جنوبی کوریا اور کینیڈا میں بھارت کے سفیر بھی رہ چکے ہیں کا کہنا ہے کہ بھارتی سفیر مسٹر بائیڈن کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں تمام کوششیں کریں گے ، جس طرح سے مودی سرکار نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں کی تھیں۔ وشنو پرکاش نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا، ’’سیدھی بات یہ ہے کہ اقتدار میں خواہ کوئی بھی ہو، ہمیں اُس سے نمٹنا ہوگا۔‘‘
ڈیموکریٹس کے ساتھ دشوار گزار تعلقات
وزیر اعظم مودی کی ہوسٹن ریلی ڈیموکریٹس کے ساتھ مودی سرکار کے تعلقات میں تلخی کی واحد وجہ نہیں تھی۔ کئی سینئر دیموکریٹ لیڈران، جن میں نائب صدر کے بطور منتخب ہونے والیں کملا ہیئرس، بھارتی نژاد ڈیموکریٹ کانگریس وومن پرمیلا جئے پال اور کئی دیگر ڈیموکریٹ لیڈران نے انسانی حقوق کے معاملات اور جموں کشمیر میں خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد عائد کی گئیں پابندیوں پر مودی سرکار کو ہدف تنقید بنایا ہے۔