آج ہی کے دن امام حسینؓ نے اپنے رفقاء کے ساتھ کربلا کے میدان میں حق کے لیے باطل قوت سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ یہی وجہ ہے کہ محرم کی دسویں تاریخ کو مسلمان امام حسین کی قربانی کو یاد کرتے ہیں۔
یومِ عاشورہ کے ساتھ ساتھ شریعت مطہرہ میں محرم کے پورے ہی مہینے کو خصوصی عظمت حاصل ہے۔
احادیث شریف میں اس ماہ کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے سوال کیا کہ ماہِ رمضان المبارک کے بعد کون سے مہینہ میں روزے رکھوں؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہی سوال ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کیا تھا اور میں آپ کے پاس بیٹھا تھا تو آپ نے جواب دیا تھا 'ماہ رمضان کے بعد اگر تم کو روزہ رکھنا ہے تو ماہِ محرم میں رکھو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ (کی خاص رحمت) کا مہینہ ہے، اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور آئندہ بھی ایک قوم کی توبہ اس دن قبول فرمائے گا۔
یاد رکھیں یومِ عاشورہ زمانہ جاہلیت میں قریشِ مکہ کے نزدیک بڑا محترم دن تھا، اسی دن خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے، قیاس یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کچھ روایات اس کے بارے میں ان تک پہنچی ہوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ قریش ملتِ ابراہیمی کی نسبت سے جو اچھے کام کرتے تھے، ان کاموں میں آپ ان سے اتفاق و اشتراک فرماتے تھے، اسی بنا پر حج میں بھی شرکت فرماتے تھے، اپنے اس اصول کی بنا پر آپ قریش کے ساتھ عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے لیکن دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے، پھر جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور یہاں یہود کو بھی آپ نے عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا اور ان کی یہ روایت پہنچی کہ یہ وہ مبارک تاریخی دن ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقاب کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے روزے کا زیادہ اہتمام فرمایا اور مسلمانوں کو بھی عمومی حکم دیا کہ وہ بھی اس دن روزہ رکھا کریں (بخاری۱/۴۸۱)
بعض احادیث میں ہے کہ آپ نے اس کا ایسا تاکیدی حکم دیا جیسا حکم فرائض اور واجبات کے لیے دیا جاتا ہے، چنانچہ بخاری و مسلم میں سلمہ بن الاکوع اور ربیع بنت معوذ بن عفراء سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یومِ عاشورہ کی صبح مدینہ منورہ کے آس پاس کی ان بستیوں میں جن میں انصار رہتے تھے، یہ اطلاع بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی تک کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ آج کے دن روزہ رکھیں اور جنہوں نے کچھ کھاپی لیا ہو وہ بھی دن کے باقی حصے میں کچھ نہ کھائیں بلکہ روزہ داروں کی طرح رہیں، بعد میں جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کے روزہ کی فرضیت منسوخ ہوگئی اور اس کی حیثیت ایک نفل روزہ کی رہ گئی (بخاری شریف۱/۲۶۸، مسلم شریف ۱/۳۶۰) ۔
اس کے بعد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہی رہا کہ آپ رمضان المبارک کے فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں میں سب سے زیادہ اسی روزہ کا اہتمام فرماتے تھے-
آئیے نظر ڈالتے ہیں یومِ عاشورہ کی تاریخ پر:
یوم عاشورہ بڑا ہی مہتمم بالشان اور عظمت کا حامل دن ہے، تاریخ کے عظیم واقعات اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ چنانچہ مؤرخین نے لکھا ہے کہ:
-1 یوم عاشورہ میں ہی آسمان و زمین، قلم اور حضرت آدم علیہما السلام کو پیدا کیا گیا۔
-2 اسی دن حضرت آدم علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰة والسلام کی توبہ قبول ہوئی۔
-3 اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔
-4 اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی۔
-5 اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔
6۔ اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔