اردو

urdu

Madan Mohan: موسیقی کے بے تاج بادشاہ مدن موہن

مدن موہن کی پیدائش 25 جون، 1924 میں عراقی کردستان کے مقام" ایربیل" میں ہوئی۔ ان کے والد رائے بہادر چنی لال فلمی کاروبا سے وابستہ تھے اوربامبے ٹاکیز اور فلمستان جیسے بڑے فلم اسٹوڈیو میں بحیثیت کاروباری شراکت دارتھے۔ گھر میں فلمی ماحول ہونے کی وجہ سے مدن موہن بھی فلموں میں کام کرکے بڑا نام کمانا چاہتے تھے۔

By

Published : Jul 13, 2023, 2:15 PM IST

Published : Jul 13, 2023, 2:15 PM IST

موسیقی کے بے تاج بادشاہ مدن موہن
موسیقی کے بے تاج بادشاہ مدن موہن

مشہور موسیقار نوشاد مدن موہن کے ایک نغمے’’ آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے‘‘ سے اس قدر متاثر ہوئے تھے کہ نوشاد نے مدن موہن سے اس دھن کے بدلے اپنی موسیقی کا مکمل خزانہ لٹا دینے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ مدن موہن کی پیدائش 25 جون، 1924 میں عراقی کردستان کے مقام " ایربیل" میں ہوئی ۔ ان کے والد رائے بہادر چنی لال فلمی کاروبار سے وابستہ تھے اور بامبے ٹاکیز اور فلمستان جیسے بڑے فلم اسٹوڈیو میں بحیثیت کاروباری شراکت دار تھے۔

گھر میں فلمی ماحول ہونے کی وجہ سے مدن موہن بھی فلموں میں کام کرکے بڑا نام کمانا چاہتے تھے۔ لیکن ان کے والد کے کہنے پر انہوں نے فوج میں بھرتی ہونے کا فیصلہ کیا اور دہرہ دون میں ملازمت شروع کر دی۔ کچھ دنوں بعد ان کا تبادلہ دہلی ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد وہ فوج کی نوکری چھوڑ کر لکھنؤ آ گئے اور ریڈیو کے لیے کام کرنے لگے۔ جہاں انھوں نے طلعت محمود، استاد فیاض علی خان، استاد اکبر علی خان اور بیگم اختر سے موسیقی کے رموز سیکھے۔ان کا اردو لہجہ بہت ہی اچھا تھا۔ اردو لکھتے بھی اچھی تھے۔بہت اچھی اردو میں گفتگو بھی کرتے تھے۔

ممبئی آنے کے بعد مدن موہن کی ملاقات ایس ڈی برمن، شیام سندر اور سی رامچندر جیسےمشہور موسیقاروں سے ہوئی اور وہ ان کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے لگے۔1950 میں ریلیز فلم ’آنکھیں‘ کے ذریعےبطور موسیقار وہ فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اس فلم کے بعد لتا منگیشکر، مدن موہن کی ہر دلعزیز گلوکارہ بن گئیں اور وہ اپنی ہر فلم کے لئے انہیں ہی گانے کی پیشکش کیا کرتے تھے۔ لتا بھی مدن موہن کی موسیقی سے کافی متاثر تھیں۔ انہوں نےمدن موہن کو ’’غزلوں کا شہزادہ‘‘ کا لقب دیا تھا۔

موسیقار او پی نیر اکثر کہا کرتے تھے ’’میں نہیں سمجھتا کہ لتا منگیشكر مدن موہن کے لیے بنی ہوئی ہے یا مدن موہن لتا منگیشکرکیلئے لیکن اب تک نہ تو مدن موہن جیسا موسیقار پیدا ہوا اور نہ ہی لتا جیسی گلوکارہ‘‘۔ مدن موہن کی موسیقی ہدایت میں آشا بھونسلے نے فلم میرا سایہ کیلئے ’’جھمكا گرا رے بریلی کے بازار میں‘‘ نغمہ گایا تھا جسے سن کر سامعین آج بھی جھوم اٹھتےہیں۔ آشا بھونسلے کو ان سے اکثر یہ شکایت رہتی تھی کہ ’’وہ اپنی ہر فلم کے لئے لتا دیدی کو ہی کیوں لیتے ہیں‘‘ اس پر مدن موہن کہتے جب تک لتا زندہ ہیں ان کی فلموں کے نغمے وہی گائیں گی‘‘

پچاس کی دہائی میں فلم انڈسٹری میں یہ بات زوروں پر تھی کہ مدن موہن صرف خواتین گلوکاراؤں کیلئے ہی موسیقی دے سکتے ہیں وہ بھی خاص طور پر لتا منگیشکرکیلئے،لیکن 1957 میں آئی فلم ’’دیکھ کبیرہ رویا‘‘ میں گلوکار منا ڈے کے لئے ’’کون آیا میرے من کے دوارے‘‘ جیسا دل کو چھو لینے والی موسیقی دے کر انہوں نے اپنے بارے میں اس تاثر کو غلط ثابت کردیا۔ سال 1965 میں فلم ’’حقیقت‘‘ میں محمد رفیع کی آواز میں مدن موہن کی موسیقی سے مزئین یہ نغمہ’’کر چلے ہم فدا جان وطن ساتھیو اب تمہارے حوالے وطن ساتھیوں‘‘ آج بھی سامعین میں حب الوطنی کے جذبے کو بلند کر دیتا ہے۔ آنکھوں کو نم کر دینے والی ایسی موسیقی مدن موہن ہی دے سکتے تھے۔

مزید پڑھیں:موسیقی کے جادوگرمدن موہن کوہلی کی کہانی

سال 1970 میں آئی فلم ’’دستک‘‘ کے لئے مدن موہن بہترین موسیقار کے قومی ایوارڈ سے نوازے گئے۔ انہوں نے اپنے طویل فلمی کیریئر میں تقریبا 100 فلموں کے لئے موسیقی دی۔ اپنی موسیقی سے سامعین کے دل میں خاص جگہ بنا لینے والا یہ موسیقار 14 جولائی 1975 کو اس دنیا سے الودا کہہ گیا۔ مدن موہن کے انتقال کے بعد 1975 میں ہی ان کی’’موسم اور لیلی مجنوں‘‘جیسی فلمیں جلوہ گر ہوئیں جن کی موسیقی کا جادو آج بھی سامعین کو مسحور کرتا ہے۔ مدن موہن کے بیٹے سنجیو کوہلی نے اپنے والد کی بغیر استعمال کی ہوئی 30 دھنیں یش چوپڑا کو سنائیں جن میں آٹھ کا استعمال انہوں نے اپنی فلم ’’ویر زارہ‘‘ کے لئے کیا ہے۔ اس فلم کے نغمے بھی سامعین کے درمیان کافی مقبول ہوئے۔

یو این آئی

ABOUT THE AUTHOR

...view details