مشہور موسیقار نوشاد مدن موہن کے ایک نغمے’’ آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے‘‘ سے اس قدر متاثر ہوئے تھے کہ نوشاد نے مدن موہن سے اس دھن کے بدلے اپنی موسیقی کا مکمل خزانہ لٹا دینے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ مدن موہن کی پیدائش 25 جون، 1924 میں عراقی کردستان کے مقام " ایربیل" میں ہوئی ۔ ان کے والد رائے بہادر چنی لال فلمی کاروبار سے وابستہ تھے اور بامبے ٹاکیز اور فلمستان جیسے بڑے فلم اسٹوڈیو میں بحیثیت کاروباری شراکت دار تھے۔
گھر میں فلمی ماحول ہونے کی وجہ سے مدن موہن بھی فلموں میں کام کرکے بڑا نام کمانا چاہتے تھے۔ لیکن ان کے والد کے کہنے پر انہوں نے فوج میں بھرتی ہونے کا فیصلہ کیا اور دہرہ دون میں ملازمت شروع کر دی۔ کچھ دنوں بعد ان کا تبادلہ دہلی ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد وہ فوج کی نوکری چھوڑ کر لکھنؤ آ گئے اور ریڈیو کے لیے کام کرنے لگے۔ جہاں انھوں نے طلعت محمود، استاد فیاض علی خان، استاد اکبر علی خان اور بیگم اختر سے موسیقی کے رموز سیکھے۔ان کا اردو لہجہ بہت ہی اچھا تھا۔ اردو لکھتے بھی اچھی تھے۔بہت اچھی اردو میں گفتگو بھی کرتے تھے۔
ممبئی آنے کے بعد مدن موہن کی ملاقات ایس ڈی برمن، شیام سندر اور سی رامچندر جیسےمشہور موسیقاروں سے ہوئی اور وہ ان کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے لگے۔1950 میں ریلیز فلم ’آنکھیں‘ کے ذریعےبطور موسیقار وہ فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اس فلم کے بعد لتا منگیشکر، مدن موہن کی ہر دلعزیز گلوکارہ بن گئیں اور وہ اپنی ہر فلم کے لئے انہیں ہی گانے کی پیشکش کیا کرتے تھے۔ لتا بھی مدن موہن کی موسیقی سے کافی متاثر تھیں۔ انہوں نےمدن موہن کو ’’غزلوں کا شہزادہ‘‘ کا لقب دیا تھا۔
موسیقار او پی نیر اکثر کہا کرتے تھے ’’میں نہیں سمجھتا کہ لتا منگیشكر مدن موہن کے لیے بنی ہوئی ہے یا مدن موہن لتا منگیشکرکیلئے لیکن اب تک نہ تو مدن موہن جیسا موسیقار پیدا ہوا اور نہ ہی لتا جیسی گلوکارہ‘‘۔ مدن موہن کی موسیقی ہدایت میں آشا بھونسلے نے فلم میرا سایہ کیلئے ’’جھمكا گرا رے بریلی کے بازار میں‘‘ نغمہ گایا تھا جسے سن کر سامعین آج بھی جھوم اٹھتےہیں۔ آشا بھونسلے کو ان سے اکثر یہ شکایت رہتی تھی کہ ’’وہ اپنی ہر فلم کے لئے لتا دیدی کو ہی کیوں لیتے ہیں‘‘ اس پر مدن موہن کہتے جب تک لتا زندہ ہیں ان کی فلموں کے نغمے وہی گائیں گی‘‘