ممبئی: معروف اداکار اور مکالمہ نگار قادرخان کے انتقال کو پانچ سال گزر چکے ہیں ،عین نئے سال کے موقع پر انہوں نے کینڈا میں آخری سانس لی اور وہیں انہیں سپردخاک کیاگیاتھا ،یہ غم ناک اور دکھ بھری خبر سال 2019 کے آغازمیں موصول ہوئی تھی اور ہندی فلمی دنیا میں صف ماتم بچھ گیا ، 81 سالہ قادرخان طویل عرصے سے بیمار چل رہے تھے، وہ اپنی مزاحیہ اداکاری سے روتوں کو بھی ہنسا دینے کی قدرت رکھتے تھے۔
بتایا جاتا ہے کہ ان کے اجداد افغانستان سے آئے تھے اور پھر ممبئی میں مقیم ہوگئے ۔قادر خان اپنے اہل خانہ کے ہمراہ کابل سے ممبئی پہنچے اور جنوبی ممبئی کے کماٹی پورہ اور پھر تاڑدیو علاقہ میں قیام کیا ۔ دلیپ کمار نے انھیں فلموں میں متعارف کرایا۔ قادر خان 300 سے زائد فلموں میں کام کر چکے ہیں۔ وہ اداکاری سے قبل انجمن اسلام صابو صدیق کالج میں لیکچرار تھے اور ڈراموں کے شوق نے انھیں فلمی دنیا تک پہنچا دیا۔
مرحوم قادرخان کے بارے میں اکثریت اس بات سے لاعلم ہے کہ تقریباً 25سال سے اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے اور دین کی ترویج وتبلیغ میں سرگرم رہے ۔ قادرخان صابوصدیق میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہیں پر ٹیکنیکل تعلیم میں درس دینے لگے اور خالی وقت میں نوجوانوں کو ڈرامہ کراتے اور تھیٹر میں اداکاری کرتے اور مکالمے بھی لکھتے رہے، اور 1970کی دہائی میں فلموں میں موقعہ ملا اور مکالمے اور کہانیاں لکھنے لگے ۔ اداکاری کا پورا موقعہ ملنے کے بعد انہوں نے ملازمت کو خیرباد کردیا۔ ان کی کلاسوں میں تعلیم حاصل کرنے اور ڈراموں میں کام کرنے کا موقعہ پانے والوں کا کہنا ہے کہ جنوبی ممبئی بدنام ریڈ لائٹ علاقہ کماٹی پورہ میں رہتے ہوئے انہوں نے سول انجنیئرنگ کی تعلیم صابو صدیق پالی ٹیکنک سے حاصل کی اور وہیں الجبرا ،اپلائٹ میتھس وغیرہ کی تعلیم کے دوران مدرس بن گئے اور ڈرامہ کا شوق پروان چڑھا۔ کالج میں یہ بات مشہور تھی کہ ”جس نے قادرخان کا پلے نہیں دیکھا وہ کالج میں کبھی گیا ہی نہیں “دلیپ کمار نے ان کے ایک ڈرامہ کو کافی پسند کیا اور انہیں فلم سگینہ اور بیراگ میں اداکاری کی پیش کش کی، مگر قادر خان کو اس سے قبل ہی فلم جوانی دیوانی میں مکالمہ لکھنے کا کام مل چکا تھا ،بیراگ میں انہیں پولیس انسپکٹر کے رول میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کا ڈرامہ ’لوکل ٹرین ‘نے جاگرتی ڈرامہ مقابلہ میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: قادر خان پر انوراگ کشیپ نے کہا' بالی ووڈ نے انہیں ان کا حق نہیں دیا'
قادر خان نے کئی فلموں میں اداکاری کے ساتھ ساتھ کہانی اور مکالمہ بھی لکھے ،جو کہ سونے پر سہاگہ ثابت ہوا اور فلمی دنیا ان کی مالا جپنے لگی تھی۔ کیونکہ مصنف کے ساتھ اداکار بھی مل گیا تھا۔ ان کے ڈراموں کے چرچے ہونے لگے اور مشہور اردو ادیب اور فلم ساز راجندر سنگھ بیدی ،ان کے بیٹے نریندر بیدی اور اداکارہ کامنی کوشل نے ملاقات کرنے کے بعد انہیں فلموں میں جوہر دکھانے کی پیشکش کی ۔اور صرف 1500روپے میں 1971 میں ریلیز ہونے والی نریندر بیدی کی فلم جوانی دیوانی میں انہوں نے مکالمے لکھے تھے، جوکہ ایک کامیاب فلم ثابت ہوئی اور انہیں ماہانہ چار سو روپے تنخواہ ملنے لگی ۔جس کے بعد فلمساز اداکار صابوصدیق پالی ٹیکنک پہنچے اور انہیں فلم کھیل کھیل میں مکالمے کی پیشکش کی اور 21ہزار روپے کا لفافہ دے گئے، لیکن مشہور فلمساز منموہن دیسائی نے قادر خان سے فلم روٹی کے مکالمے لکھوائے جو کہ ’کھیل کھیل میں‘ سے پہلے ریلیز ہوئی تھی۔ط من موہن دیسائی نے ایک موٹی رقم ،طلائی بریسلیٹ اور ٹی وی سیٹ بھی دیا۔ اس کے بعد دونوں نے ”دھرم ویر“،”امر اکبر انتھونی ،”قلی اور تقریباً پندرہ سال میں چھ دیگر فلموں میں ساتھ ساتھ کام کیا اور سبھی فلمیں کامیاب رہیں۔ فلمی شخصیت مان جی کے ذریعہ ان کے مسلم ہونے اور شعر و شاعری اور محاوروں کی وجہ سے انہیں کامیابی حاصل ہورہی ہے، اس سے قادرخان کو صدمہ پہنچا اور انہوںنے جب ایک مشورہ دیا اور اس پر عمل کرنے کے بعد مان جی نے کہا کہ فلمی دنیا کو ایک باصلاحیت اور قابل مصنف مل گیا ہے۔
قادر خان نے پرکاش مہرہ کے ساتھ بھی کام کیا حالانکہ من موہن دیسائی اور پرکاش مہرہ میں حریفائی تھی،لیکن دونوں امیتابھ بچن کو چاہتے تھے اور اسی طرح قادرخان بھی ان کے پسندیدہ اداکار اور رائٹر تھے۔