شہنشاہ موسیقی کے ایل سہگل نے 15 سال کے عرصے میں 185 نغموں کے لیے اپنی آواز دی اور 36 فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے اور جنوری 1947 اس دنیا سے کوچ کرگئے، سہگل کو 1930 کی دہائی میں فلمی دنیا کے نقشے پر نظرآئے جب نیو ٹھیٹر کلکتہ کے مالک بی این سرکارنے سامعین کے سامنے پیش کیا اور انہیں زبردست شہرت حاصل ہوئی۔ Indian Singer and Actor۔ سہگل کا پورا نام کندن لال سہگل تھا۔ان کی پیدائش 11اپریل 1904 میں ہوا تھا۔ معروف گلوکار اور اداکارکے مقامِ پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ جموں میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد تحصیلدار تھے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ان کے بعض سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی استاد سے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی، اور نہ موسیقی کے کسی معروف گھرانے سے وابستہ تھے، لیکن جب جموں میں تھے تووالدہ کے ساتھ مذہبی تقاریب اور مندروں میں بھجن کی محفلوں میں شرکت کرتے اور والدہ کے ساتھ مل کر بھجن خود گایا بھی کرتے۔
بعض سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ جموں کے ایک غیر معروف صوفی بزرگ سلمان یوسف کے آستانے پر حاضری بھی دیتے تھے اور بھجن یا عارفانہ کلام سناتے۔ یہ بزرگ خود بھی گاتے تھے اس لیے عین ممکن ہے کہ انہیں موسیقی میں کچھ درک رہا ہو اور انہوں نے سہگل کی اس سلسلے میں کچھ ابتدائی تربیت کی ہو۔ موسیقی اور گائکی سہگل کی رگ رگ میں رچی بسی ہوئی تھی، جو ان کا ذریعہ معاش نہیں تھا نہ ہی انہوں نے اسے روزی کا ذریعہ بنانے کا کوئی منصوبہ بنایا تھا اور بنا بھی نہیں سکتے تھے، اس لیے کہ اس زمانے میں موسیقی اور پہلوانی دونوں صرف جاگیرداروں اور رجواڑوں کی سرپرستی میں فروغ پاتی تھیں اور سلگی ایک آزاد انسان تھے جن کے لئے درباروں کے آداب سے مطابقت پیدا کرنا یقیناً مشکل تھا۔
چنانچہ سہگل کلکتہ چلے گئے اور وہاں انہیں ٹائپ رائٹر بنانے والی کمپنی میں 80 روپے ماہانہ کی سیلز مین کی نوکری مل گئی۔ کلکتہ میں ہی ان کی ملاقات نیو تھئیٹر کے بانی بی۔ این۔ سرکار سے ہوگئی۔ سرکار کو سہگل کی آواز بہت پسند آئی اور انہوں نے نیو ٹھیئٹر میں سہگل کو گلوکار کے طور پر دو سو روپے ماہانہ ملازمت پر رکھ لیا۔
نیو تھئیٹر میں اس زمانے میں رائے چند بورل، تامیر برن، کے سی ڈے، پہاڑی سانیال اور پنکج ملک جیسے موسیقار موجود تھے جن میں بورل سب سے سینئیر تھے اور انہوں نے سہگل کے فن میں نکھار اور پختگی پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ۔نیو تھئیٹر کی فلموں سے ہی سہگل کو ہندوستان میں شہرت حاصل ہوئی۔ نیو تھیٹئر کے موسیقاروں کی بنائی ہوئی دھنوں پر ہی انہوں نے وہ نغمے گائے جنہوں نے انہیں زندہ جاوید بنادیا۔ مثلاً دیو داس کا یہ نغمہ ’دکھ کے دن اب بیتت ناہیں ‘ یا ’بالم آئے بسو میرے من میں یا فلم اسٹریٹ سنگر کا یہ گیت ’بابل مورا نہیئر چھوٹل جائے‘ وغیرہ وغیرہ۔
نیو تھئٹر نے ابتدا میں سہگل کے ساتھ تین فلمیں بنائیں جو مالی اعتبار سے ناکام رہیں۔ ان میں پہلی محبت کے آنسو، زندہ لاش اور صبح کا تارہ شامل ہیں۔ 1933 میں بھی نیو تھئیٹر نے تین فلمیں ریلیز کیں جن میں پورن بھگت، راج رانی میرا او اور یہودی کی لڑکی شامل ہیں۔ یہ فلمیں کامیاب رہیں جس سے سہگل کو شہرت ملی اور بحیثیت اداکار اور گلوکار وہ شناخت بنانے میں کامیاب رہے۔ 1934 میں نیو تھئیٹر نے مزید تین فلمیں ریلیز کیں، جن میں چندی داس نے سہگل کو وہ مقام دیا جہاں سے انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا یہاں تک کہ دوسرے سال یعنی 1935 میں دیو داس نے ان کو ایک کامیاب گلوکار کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب اداکار بھی بنادیا۔
دیو داس سرت چندر چٹّرجی کا شہرہ آفاق ناول ہے جس نے نہ صرف بنگالی ادب میں گراں قدر اضافہ کیا بلکہ ہندوستان کے اعلی گھرانوں اور متوسط طبقے کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے جذبات اور احساسات اور ان کی الجھنوں کو زبان دیدی جو ایک طرف جمہوریت، آزادی، سیکولرزم اور انسانی مساوات کے سنہرے اصولوں سے واقفیت حاصل کر رہے تھے اور دوسری جانب خود ان کے اپنے سماج میں ان اصولوں کو بڑی بیدردی سے روندا جا رہا تھا۔