اک دن بک جائے گا ماٹی کے مول، کتنا نازک ہے دل یہ نہ جانا، ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ، جب دل ہی ٹوٹ گیا، ہم جی کے کیا کریں گے، ہمیں تم سے پیار کتنا، جیسےمعروف نغموں کے خالق مجروح سلطان پوری یکم اکتوبر 1919 کو اتر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے۔ اصل نام اسرارالحسن خان تھا۔ والد پیشہ سے سب انسپکٹر تھے۔ انہیں اعلیٰ تعلیم دینا چاہتے تھے لیکن مجروح نے ساتویں جماعت مکمل کرنے کے بعد عربی و فارسی کی تعلیم کے لیے سات سالہ کورس میں داخلہ لے لیا۔ اردو ، فارسی اور عربی میں مجروح نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ درس نظامی کا کورس مکمل کرنے کے بعد عالم بنے، جس کے بعد لکھنؤ کے تکمیل الطب کالج سے یونانی طریقہ علاج میں تعلیم حاصل کی اور حکیم بن گئے۔ Majrooh Sultanpuri Death Anniversary
اپنا دواخانہ چلا یا، جہاں وہ مریضوں کو حکیمانہ نسخوں سے صحت یاب کرتے تھے۔ حکیمی دواخانہ کے ساتھ ساتھ وہ سلطان پور میں مشاعروں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ انہیں شعر و شاعری کا شوق تھا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ انہوں نے حکمت کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شعر و شاعری سے رشتہ جوڑ لیا۔ ایک مرتبہ سلطان پور میں مشاعرے میں غزل پڑھی جسے سامعین نے بے حد سراہا۔ اِس طرح مجروح نے حکمت چھوڑ کر شاعری کے ذریعے معاشرے کی نبض پہ ہاتھ رکھنے کا سوچا۔ پھر لفظوں سے لوگوں کا علاج کرنے لگے۔
ایسے وقت میں جگر مراد آبادی سے ملاقات اور ان کی صحبت نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔ کم عمری سے ہی مشاعروں میں شرکت کرنے کے عادی مجروح اب بیرون ریاست مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے تھے۔ شعر و شاعری اور فلموں میں نغمہ نگاری کے دوران انہوں نے اپنا تخلص مجروح رکھا اور پھر مجروح سلطان پوری کے نام سے ہی معروف ہو گئے۔ مجروح اردو غزل کے منفرد شاعر تھے، لیکن اُن کی غزلیات کی تعداد ستر سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اُن کا شمار ترقی پسند شعراٴ میں ہوتا ہے۔
جگر مرادآبادی کو مجروح اپنا استاد مانتے تھے۔ مجروح نے اپنا پہلا فلمی گیت 'غم دئیے مستقل' 1945ء میں فلم شاہجہاں کے لیے تحریر کیا تھا۔ اسی نغمے نے مجروح کو فلمی نغمہ نگاروں کی پہلی صف میں لا کھڑا کیا۔ جن کی ہر طرف دھوم مچ گئی۔ ان کا یہ گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے۔ مجروح کا یہ فلمی سفر پانچ دہائیوں تک چلتا رہا۔ البتہ مجروح کو یہ پسند نہیں تھا کہ ان کی شاعری کو فلم یا فلمی دنیا کے حوالے سے جانا جائے۔
جب دل ہی ٹوٹ گیا، ہم جی کے کیا کریں گے، انتہائی مقبول ہوا۔ اس نغمے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کے۔ ایل۔ سہگل کے جنازے کے ساتھ بجایا گیا۔ سہگل کی آواز میں مجروح کے گیت اس قدر مقبول ہوئےکہ گلی کوچوں میں گونجنے لگے اور مجروح کی شہرت کو گویا پر لگ گئے۔ انہیں پے درپے فلمیں ملنے لگیں، ان کا فلمی گیت لکھنے کا اپنا ایک خاص انداز تھا فلمی گیتوں میں بھی مجروح نے ادبی تقاضوں کو برقرار رکھا، انہیں فلمی دنیا کے سب سے بڑے اعزاز دادا صاحب پھالکے سے نوازا گیا۔
ان کے فلمی گیتوں سے بخوبی اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسے تخلیق کار کے قلم سے وجود میں آئے ہیں جو غزلیہ شاعری کا گہرا ادراک رکھتا ہے اور جس نے تمام رموز سامنے رکھ کر اپنے تجربات اشعار کے قالب میں ڈھالے ہیں۔ مجروح نے پچاس سال فلمی دنیا کو دیے ۔ انہوں نے300 سے بھی زائد فلموں میں ہزاروں گیت لکھے۔ ان کے سینکڑوں نغمے آج بھی ان کے شیدائیوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔
1945ء کی بات ہے جب مجروح نے ممبئی کے ایک مشاعرے میں شرکت کی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب ان کی شاعری ادبی حلقوں میں اپنا پرچم لہرا رہی تھی۔ ممبئی کا اس مشاعرے نے مجروح کی زندگی کا رخ ہی موڑ دیا۔ مذکورہ مشاعرے میں فلم انڈسٹری کے مشہور پروڈیوسر اے آر کاردار بھی شریک تھے جنھیں ان کی شاعری نے اپنا دلدادہ بنا لیا۔ کاردار نے فوراً مجروح کے پاس نغمہ نگاری کی پیش کش کی۔ حالانکہ اس وقت انہوں نے منع کر دیا لیکن جب جگر مراد آبادی نے مجروح کو سمجھایا تو وہ راضی ہو گئے۔ پھر کاردار نے موسیقار نوشاد سے مجروح کی ملاقات کرائی۔ یہ وہ موقع تھا جب دو بڑی شخصیتوں کا ‘ملن’ ہو رہا تھا۔ نوشاد نے فوراً ایک ساز (دھن) پیش کیا اور نغمہ لکھنے کی فرمائش کی۔ گویا مجروح کا پہلا فلمی نغمہ منظر وجود پر آیا۔ وہ نغمہ تھا:
جب اس نے گیسو بکھرائے بادل آیا جھوم کے، مست امنگیں لہرائی ہے رنگیں مکھڑا چوم کے
نوشاد کو یہ نغمہ بہت پسند آیا اور انہوں نے فلم ‘تاج محل’ میں نغمہ نگاری کی ذمہ داری مجروح کے سپرد کر دی۔ اس فلم کے نغموں کی پسندیدگی کا یہ عالم تھا کہ سبھی کی زبان پر صرف مجروح کا ہی نام تھا۔ اس کے بعد ان کے پاس نغمہ نگاری کے لیے کئی پیش کش آئے اور یہی موقع تھا جب وہ بالی ووڈ کے ہو کر رہ گئے۔ حالانکہ ایسا کہنا درست نہیں ہوگا کہ انہوں نے فلموں میں نغمہ نگاری کی اور ادب سے کنارہ کش ہو گئے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کم و بیش 70 غزلیں لکھی ہیں جب کہ فلمی نغموں کی تعداد تقریباً 4000 ہے۔ ماہرین ادب کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ مجروح ادبی شاعری پر توجہ دینے کے بجائے فلمی دنیا کی نذر ہو گئے۔ لیکن شاعر اشعر ہاشم کا نظریہ کچھ مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجروح نے فلموں کے لیے صرف شوقیہ لکھا ہے اور ان کی پہلی محبت غزل تھی۔ انہوں نے فلمی نغموں میں بھی اردو ادب کی تاثیر کو برقرار رکھنے کی طرف پوری توجہ دی تھی۔
بلاشبہ مجروح سلطان پوری کے فلمی نغموں میں ہمیں خیالات کی نازکی کے ساتھ ساتھ زندگی کے تجربات جس انداز میں پیش پیش نظر آتے ہیں وہ ان کی ادب پروری کا ہی نتیجہ ہے۔ نغموں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی ایسے تخلیق کار کے قلم سے صفحہ قرطاس پر اترے ہیں جو نہ صرف غزلیہ شاعری کا گہرا ادراک رکھتا ہے بلکہ جس نے تمام رموز و علائم کو اشعار کے قالب میں ڈھال دیا ہے۔