پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کے انتقال پر اردو اورہندی ادبی حلقے غم کا اظہار کررہے ہیں۔ بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ ہندی کے پروفیسر آشیش ترپاٹھی نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کے دوران اپنے رنج و غم کا اظہار کیا اور کہا کہ شمس الرحمن فاروقی کو جس طرح اردو دنیا میں مقبولیت حاصل تھی اسی طرح ہندی ادب میں بھی ان کا سمان تھا۔
'پروفیسر شمس الرحمن فاروقی اردو ہندی میں یکساں مقبولیت رکھتے تھے'
اردو زبان و ادب کے عظیم قلمکار ،بڑے نقاد ، جدیدیت کے علمبردار پروفیسر شمس الرحمان فاروقی کا آج صبح تقریباً 11:30 بجے انتقال ہوگیا، جس سے نہ صرف اردو دنیا سوگوار ہے بلکہ ہندی ادب سے تعلق رکھنے والے ادیب بھی غم کا اظہار کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پروفیسر شمس الرحمان فاروقی جدیدیت کے علمبردار تھے انہوں نے براہ راست سیمینار ادبی مجالس اور ادبی نشستوں میں شامل نہ ہو کر گھر پر رہ کر وہ کارہائے نمایاں انجام دیا ہے جو نہ صرف اردو ادب کے لئے سرمایہ فخر ہے بلکہ ہندی ادب کے لئے بھی بیش بہا قیمتی سرمایہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی 'کئی چاند تھے سرِ آسماں'کا جب ترجمہ ہندی زبان میں کی گئی اس کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ اصل ہندی کی کتابیں جتنی نہیں پڑھی گئی اس سے کہیں زیادہ ان کی یہ ناول پڑھی گئی ۔
انہوں نے کہا کہ آج سے دس برس قبل شمس الرحمن فاروقی کا دورہ بنارس ہندو یونیورسٹی ہوا تھا اس زمانے میں بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ ہندی نے ان کے اعزاز میں ایک پروگرام کا انعقاد کیا تھا اور وہاں پر ان کی خطاب کو سماعت کیا گیا تھا اور ان کو مختلف انعامات بھی دیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی کی وہ ایسی شخصیت ہے جنہوں نے ہندی اور اردو کو قریب کرنے میں انتہائی معاون کردار ادا کیا ہے سنگم نگری سے تعلق رکھنے والے شمس الرحمٰن فاروقی نے جس طریقے سے گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دیا اردو ہندی کو قریب کرنے میں کردار ادا کیا وہ ناقابل بیان ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات قدرے مختلف ہے کہ اردو زبان کے قلم کار ہونے کی وجہ سے اردو کا پلرا (غلبہ )اگرچہ زیادہ رہا لیکن ہندی ادب میں بھی انہوں نے زبردست کام کیا ہے۔