انہوں نے کہا کہ مدارس میں بنیادی پریشانی یہ ہے کہ اترپردیش حکومت نے اگرچہ جدید نصاب کا نفاذ کر دیا ہے لیکن کتابیں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ مزید نئے اساتذہ کی تقرری بھی نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے مدارس کے طلبہ و طالبات شدید متاثر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر انہیں کامیابی ملتی ہے تو وہ پر زور طریقے سے مدارس کی آواز بلند کو بلند کریں گے۔ مزید کہا کہ مدارس میں تعینات سائنس ٹیچر برسوں سے فرائض انجام دے رہے ہیں لیکن ابھی تک انہیں مستقل کیا گیا ہے اور ان کی کی تنخواہیں گزشتہ کئی برسوں سے رکی ہوئی ہیں ریاستی حکومت کے ذریعے بھی ان کو کچھ اعزازیہ دیے جاتے ہیں لیکن ابھی تک وہ رکا ہوا ہے۔ اس مسئلے کو بھی پرزور طریقے سے بلند کیا جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ کی پنشن اسکیم کی بحالی کے لیے بھی آواز اٹھائیں گے۔ مدارس میں کھیل کا بندوبست ہو اس کے لیے بھی حکومت کو اور مدرسہ بورڈ کو قواعد و ضوابط مرتب کرنے کا مطالبہ رکھیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ یوپی مدرسہ بورڈ لکھنؤ کے زیر اہتمام دسویں اور بارہویں جماعت تک طلباء و طالبات امتحان دیتے ہیں جو انٹر اور ہائی سکول کے مساوی ضروری قرار دیا گیا ہے لیکن بارہویں جماعت سے آگے جو طلباء طالبات امتحانات دیتے ہیں اس مارکشیٹ کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔اس سلسلے میں میں حکومت سے پرزور طریقے سے مطالبہ کریں گے اور لکھنؤ میں قائم خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی سے الحاق کی پوری کوشش ہوگی تا کہ مدارس سے پڑھنے والے طلباء و طالبات کو ترقی کرنے کے مواقع ہموار ہو سکیں۔انہوں نے کہا کہ آل انڈیا ٹیچرس ایسو سی ایشن مدارس عربیہ کے جنرل سیکریٹری وحیداللہ خان سعیدی نے اپنی تنظیم کی جانب سے حمایت کا اعلان کیا ہے۔جس کے لیے ان کا شکر گزار ہیں اور مدارس کو پیش آنے والی ہر مشکلات حل کرنے کی ممکن کوشش ہوگی۔