مرحوم رکن الدین کے بہت ہی عزیز احمد اعظمی بتاتے ہیں کہ' ابتدائی دور میں انہوں نے نعتیہ کلام و منقبت میں طبع آزمائی کی، لیکن جب مشاعروں کی دنیا میں قدم رکھا تو طنز و مزاح کی جانب مائل ہوگئے، ان کی شاعری میں طنز و مزاح کی وہ چاشنی ہوتی ہے جسے سن کر انسان برجستہ طور پر خود کو ہنسنے سے نہیں روک سکتا تھا'۔
کتنے گل ہم نے کھلائے ہیں یہاں اور وہاں میری بیگم کو خبر ہو یہ ضروری تو نہیں-
میں محبت کا پجاری ہوں سیاست کا نہیں، ساتھ میں میرے گزر ہو یہ ضروری تو نہیں
رکن بنارسی کا یہ شعر...
ایک کوے کو چوٹ لگی تو سارے کوے چینخ پڑے، زخمی ایک انسان پڑھا ہے ہم سے تم سے مطلب کیا
نعتیہ کلام
اپنے محبوب کی حفاظت میں غار پر مکڑیوں کا جالا ہے۔