فروری مہینے کی 21 تاریخ کو عالم میں مادری زبان کے فروغ اور تفظ فراہم کرنے کے غرض سے منایا جاتا ہے۔ World Mother Language Day وادی کشمیر کی بات کریں تو یہاں کے باشندگان کی مادری زبان کشمیری ہے۔ اور اس زبان کو ہندوستانی آئین کے آٹھویں شیڈول میں 22 زبانوں کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا ہے۔
کشمیری زبان کے فروغ اور تحفظ کے لیے والدین کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا 70 لاکھ سے زائد بولنے والوں کے باوجود بھی یہ زبان آج گمنامی کے دروازے پر کھڑی ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے کشمیری زبان کو فروغ دینے کے لیے پروگرام کے تحت اسکولوں میں زبان کو متعارف کیا تاہم اس کے نتائج تسلی بخش نہیں ہیں۔
کشمیری زبان کو فروغ اور تحفظ فراہم کرنے کے غرض سے ای ٹی وی بھارت نے کشمیر یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرز سے بات کی۔ بیشتر کا کہنا تھا کہ کشمیری زبان کے فروغ اور تحفظ کی سب اہم ذمہ داری والدین کی ہے۔
کشمیری شاعر آصف طارق بٹ کا کہنا تھا کہ "انسان لازوال نعمتوں سے مالا مال ہے۔ سب سے بڑی نعمت ہے زبان کی ہے کیونکہ اسی سے وہ اپنے جذبات اور احساسات ایک دوسرے تک پہنچا سکتا ہے۔ ہماری مادری زبان کشمیری ہے۔ جب تک قوم کو اپنی زبان سے محبت اور شفقت نہیں ہوگی تب تک ان کی شناخت برقرار نہیں رہے گی۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہم چیں یا جاپان کی طرف نظر ڈالیں تو وہاں کے تمام بورڈ اُن کے اپنی زبان میں ہوتے ہیں، انگریزی میں نہیں۔ نئی زبان سیکھنا یا بولنا غلط بات نہیں ہے لیکن اپنی مادری زبان کو بھول جانا غلط بات ہے۔ زبان پہچان ہوتی ہے اس لیے اس سے محبت کرنا ضروری ہے۔"
کشمیر یونیورسٹی کی ریسرچر سید ثمرین سجاد کا کہنا ہے کہ "اگرچہ اسکولوں کے نصاب میں کشمیری زبان کو متعارف کیا گیا ہے تاہم دلچسپی سے اس زبان کو کوئی نہیں پڑ رہا ہے۔ نہ سرکاری اسکولوں میں اور نہیں نجی اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ جس وجہ سے بچے کشمیری زبان سیکھنے میں کافی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ بچوں کی زیادہ توجہ انگریزی اور اردو پر ہی رہتا ہے۔ "
اُن کا مزید کہنا تھا کہ "میرے حساب سے والدین کو بھی چاہیے کی وہ بچوں کے لیے گھر پر کشمیری ماحول بنائے۔ مادری زبان پر زور دیں، باقی زبان تو بچے اسکول میں بھی سیکھ سکتے ہیں۔ جو بچہ پہلے اپنی مادری زبان سیکھتا ہے وہ ذہین بن جاتا ہے۔ "
ریسرچر بینش افضل کے خیالات بھی مختلف نہیں تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ "ہمیں اگر اپنی مادری زبان کشمیری کو فروغ اور تحفظ فراہم کرنا ہے تو ابتدائی تعلیم سے ہی اس پر زور دینا ضروری ہے، یونیورسٹی سطح پر زیادہ کچھ نہیں ہوسکتا۔ جب ہم اپنے بچوں کو اپنے میراث، زبان کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت کیوں ہے سمجھائیں گے، تب ہی کچھ ہو سکتا ہے۔"
اُن کا مزید کہنا تھا کہ "جنوبی بھارت کی ہی مثال لے لو، وہ اپنی زبان کو ہر زبان سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ ہم کو اُن سے سیکھنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو جائے یہاں کوئی کشمیری بولنے والا ہی نہ رہے۔"
وہیں ڈاکٹر مہناز رشید کا کہنا تھا کہ "سب سے پہلے ہم کو زبان کو تحفظ فراہم کرنے کے غرض سے خود میں شعور پیدا کرنا ہوگا، ہمیں اپنی زبان پر فخر محسوس کرنا چاہیے تب ہی ہم اپنی پہچان کو بھی بچا سکتے ہیں۔"
اُن کا مزیدکہنا تھا کہ "والدین کو اہم کردار نبھانا ہوگا۔ بچوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ تبھی اس زبان کو بچایا جا سکتا ہے۔ ہمیں انگریزی کی جگہ کشمیری پر زور دینے کی ضرورت ہے۔"