جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی سے قبل یہاں تقریباً ایک درجن کمیشنز تھے، جن میں اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن، انفارمیشن کمیشن، وومنز کمیشن، احتساب کمیشن قابل ذکر ہیں۔ان کمیشنز کو قائم کرنے پر سابقہ حکومتوں کا کہنا تھا کہ اس سے کام و کاج میں شفافیت اور احتساب آئے گا، تاہم دو برس برسوں کے بعد بھی ان کمیشنز کے متعلق مرکزی حکومت اور نہ ایل جی انتظامیہ نے کوئی بات کہی۔
وہیں جموں و کشمیر کے محکمہ قانون کے سیکرٹری آچل سیٹھی نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کیا، ای ٹی وی بھارت نے سرینگر میں پرانے اسمبلی کمپلیکس کا دورہ کیا جہاں ان کمیشنز کے دفاتر قائم تھے، انتظامیہ نے عمارت کو دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد آثار قدیمہ کے دفتر میں تبدیل کردیا ہے۔ آج بھی اس عمارت میں کئی لوگ اپنی شکایتیں لے کر آتے ہیں لیکن کمیشنز موجود نہ ہونے کے سبب مایوس چلے جاتے ہیں۔
ان عرضی گزاروں میں ایک نام زینت کا بھی ہے جن کے والد کو ہلاک کیا گیا تھا اور اس معاملے کے متعلق ان کی عرضی اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن میں دائر تھی جس پر 5 اگست تک سماعت بھی جاری رہی۔ لیکن دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد زینت کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کی عرضی کا کیا ہوا۔