دنیا بھر میں اگرچہ الگ الگ زبانوں میں مرثیہ خوانی کا رواج عام ہے، لیکن کشمیری زبان میں مرثیہ خوانی کی اپنی ایک الگ تاریخ ہے اور اس کے پڑھنے کا بھی ایک منفرد انداز ہے۔کشمیر میں مرثیہ خوانی شاہ میر کے دور میں آئی اور اس کے بعد سے یہاں مرثیہ پڑھنے کا رواج عام ہوگیا۔کشمیری مرثیہ کو انفرادی طور سے نہیں پڑھا جا سکتا ہے بلکہ اس کے لئے اجتماع کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس کے پڑھنے والا جسے 'ذاکر' کہتے ہیں وہ مرثیہ کا مصرع اٹھاتا ہے اور دیگر افراد اس کے ساتھ مصرع پورا کرتے ہیں۔
مرثیہ خوانی کے لیے پہلے دائرہ بنایا جاتا ہے اور اسی کے ارد گرد عزادارن امام حسین بیٹھتے ہیں۔ کشمیری مرثیوں کے تعلق سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ اس کا وزن کافی مختلف ہوتا ہے لہذا جو مصنف ہوتا ہے وہیں مرثیہ کا وزن بھی دیتا ہے۔
کشمیری مرثیہ الگ الگ حصوں میں پڑھی جاتی ہے۔ جیسے مضمون کا جو پہلا جز ہوتا ہے اس میں حمد و ثنا ہوتی ہے۔اس کے بعد نعت نبیﷺ، اس کے بعد مدح خوانی اور پھر آخر میں مصائب امام حسین کا ذکر کیا جاتا ہے'۔