گزشتہ روز خبر رساں ایجنسی 'پی ٹی آئی' نے ایک رپورٹ شائع کی تھی کہ 'مرکزی حکومت علاحدگی پسند تنظیم حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں پر پابندی عائد کرسکتی ہے'۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 'ملک مخالف سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے 'یو اے پی اے' کے تحت علاحدگی پسند جماعت 'حریت کانفرنس' کے دونوں دھڑوں یعنی میر واعظ عمر فاروق اور سید علی گیلانی والی حریت کانفرنس پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔
رپورٹ میں ان پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ 'حالیہ سکیورٹی ایجنسیوں کی تحقیقات سے اس بات کا خلاصہ ہوا ہے کہ چند جماعتیں جو کہ علاحدگی پسند جماعتوں کا حصہ تھیں کشمیری طلبہ سے پاکستانی میڈیکل کالجز میں سیٹوں کے عوض رقم جمع کرکے ان پیسوں کو شدت پسندانہ عمل کے فروغ میں استعمال کررہی ہیں'۔
اس کے بعد حریت نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ 'اس طرح کے گمراہ کن پروپیگنڈے، جبر و قہر کی پالیسیوں، دھمکیوں اور اوچھے ہتھکنڈوں سے جموں وکشمیر سے متعلق حقائق ہرگز تبدیل نہیں کئے جاسکتے'۔ بیان میں کہا گیا کہ 'حریت کانفرنس میر واعظ کی قیادت میں اپنے اصولی موقف کے پیش نظر عوامی نمائندگی کرتے ہوئے تنازعہ جموں وکشمیر کے فریقین کے مابین پر امن مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے مسئلہ کے حل کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گی'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'حکومتی اداروں کے اس پروپیگنڈے کی وہ شدید مذمت کرتے ہیں کہ اس کی ایگزیکٹیو قیادت کشمیری امیدواروں کو پاکستان کے میڈیکل اور ٹیکنیکل کالجوں میں داخلہ کے لیے سفارش کے دوران طلبا سے سیٹیں فروخت کرکے ان سے قیمت وصول کرتے ہیں'۔ بیان میں کہا گیا کہ 'اس کی تصدیق خود ان طلبہ اور ان کے والدین سے کی جاسکتی ہے جن کی حریت کانفرنس نے سفارش کی ہے، جب کہ ان میں سے بیشتر طلبہ مالی اعتبار سے کمزور ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ حریت چیئرمین جو کشمیر کے میر واعظ (سب سے بڑے مذہبی رہنما) بھی ہیں جو سعودی عرب، ملائیشیا، ترکی، بنگلہ دیش اور دیگر کئی ممالک میں حصول علم کے لیے جانے والے طلبہ کی فلاح و بہبود کی خاطر ان کی خواہش پر سفارشی خطوط بھی جاری کرتے رہے ہیں جو ان سے اس حوالے سے رابطہ کرتے ہیں'۔
حالیہ دنوں جموں وکشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے پریس کانفرنس میں اس بات کا خلاصہ کیا تھا کہ پولیس نے چار افراد کو گرفتار کیا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ پاکستانی کالجوں میں ایم بی بی ایس و دیگر سیٹیں کشمیری طلبہ میں فروخت کررہے تھے۔ گرفتار شدہ افراد میں سابق عسکریت پسند اور جموں و کشمیر سالویشن موومنٹ کے صدر ظفر اکبر بٹ شامل تھے۔ اس سے قبل سنہ 2019 میں حکومت نے مذہبی تنظیم جماعت اسلامی اور یاسین ملک کی قیادت والی تنظیم جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ پر پابندی عائد کی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ حریت کانفرنس کا وجود سنہ 1993 میں ہوا تھا جب علاحدگی پسند سوچ رکھنے والے سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے ایک ہی پیلٹ فارم پر یکجا ہوکر مسئلۂ کشمیر کے سیاسی اور پُرامن حل کے لئے جدوجہد کرنے کا عزم کیا تھا۔ اس تنظیم میں 23 اکائیاں شامل تھیں۔