میڈیا کو جاری ایک بیان میں حریت نے کہا کہ آئے روز جموں و کشمیر میں ایسے قوانین متعارف اور نافذ کئے جارہے ہیں جن کا مقصد لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرکے ان کے حقوق کو مزید سلب کیا جاسکے۔ چنانچہ سرکاری ملازمین کو بغیر کسی تحقیقات کے اچانک برطرف کرنا اور انہیں اپنے دفاع کا بھی موقع فراہم نہ کرنا اسی پالیسی کا حصہ ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ اخباری رپورٹوں کے مطابق لوگوں میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کرنے کی خاطر سینکڑوں کشمیری ملازمین کو برطرف کرنے کی لیے فہرست مرتب کی جا چکی ہیں۔ جن عجیب و غریب قوانین کے تحت ملازمین کو نوکری سے برخواست کیا جاسکتا ہے ان میں وہ یا ان کے خاندان کے افراد یو اے پی اے ایکٹ(UAPA) اور پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) کے تحت حراست میں ہے۔
حریت کانفرنس کے مطابق پاسپورٹ کے لیے درخواست دیتے وقت، جموں و کشمیر کے سرکاری ملازمین کو سیکورٹی کلیئرنس لینا لازمی ہے، جو کہ کہیں اور نہیں ہے۔
حریت نے کہا کہ چونکہ جموں و کشمیر کی آبادی کا ایک بڑا طبقہ سرکاری شعبے میں کام کر رہا ہے، لہٰذا ان قوانین کا مقصد انہیں خاموش کراکے اظہار رائے کو روکنے کے ساتھ ساتھ کسی بھی قسم کے اختلاف پر قدغن لگانا ہے۔
حریت کانفرنس نے اس طرح کے آمرانہ اقدامات سے لوگوں کے امنگوں کو کچلنے کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے عوام میں مزید اختلاف اور غم و غصہ پیدا ہوتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ مقامی میڈیا کے رپوٹروں اور میڈیا ہاﺅسس کو بھی مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان کے گھروں اور دفاتر پر چھاپوں اور ان کے آلات کو ضبط کرنے کے ذریعے انہیں ہراساں کرنے کا عمل بھی جاری ہے جبکہ اس حوالے سے کئی افراد کو گرفتار بھی کیا جاچکا ہے۔
بیان میں مزید دیگر سخت قوانین کے نفاذ، کشمیر پولیس کے ذریعے نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ سے جیلوں اور تھانوں میں کشمیریوں کی تعداد مزید بڑھ گئی ہے، جبکہ سیاسی رہنماﺅں اور کارکنوں سمیت سینکڑوں نوجوان بغیر کسی علاج معالجہ کے سالوں سے جیلوں میں قید ہیں اور خود حریت چیرمین میرواعظ عمر فاروق گزشتہ 26 مہینوں سے غیر قانونی طور پر گھر میں نظر بند رکھے گئے ہیں۔
حریت نے کہا کہ جموں و کشمیر میں صورتحال ابتر ہے اور لوگ خاص طور پر نوجوان شدید گھٹن محسوس کررہے ہیں جس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔