اردو

urdu

ETV Bharat / city

کشمیر: دلدوز سڑک حادثات میں اضافہ

ریاست جموں و کشمیر میں سڑک حادثات میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ہر برس سینکڑوں افراد ان حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں۔

By

Published : Jul 2, 2019, 11:26 PM IST

کشمیر: دلدوز سڑک حادثات میں اضافہ

گرچہ ان سڑک حادثات کے بعد انتظامیہ و سیاسی رہنما اظہار افسوس کر رہے ہیں لیکن ان پر قابو پانے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔

کشمیر: دلدوز سڑک حادثات میں اضافہ

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں سنہ 2018ء میں 5529 سڑک حادثات پیش آئے جن میں 908 افراد ہلاک اور 7250 زخمی ہوئے تھے۔

رواں برس کے پہلے چار مہینوں میں 1ہزار 696 حادثات پیش آئے ہیں، ان میں 270 افراد ہلاک ہوئے۔

کشمیر: دلدوز سڑک حادثات میں اضافہ

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں ہر روز 15 سڑک حادثات ہوئے ہیں جن میں اوسطا ایک شخص ہلاک اور 4 زخمی ہوتے ہیں۔

سنہ 2017 میں انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں ٹریفک حادثات میں اموات اور معذور ہونے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

گزشتہ دنوں میں صرف دو ایسے دلدوز حادثات پیش آئے جن میں 46 افراد ہلاک ہوگئے ہیں جن میں تفریح پر گئی 11 طالبات بھی شامل ہیں۔

اعدادو شمار کے مطابق جموں کے 10 اضلاع میں وادی کے مقابلے زیادہ سڑک حادثات ہوئی ہیں۔

یہ حادثات پہاڈی ضلع کشتواڑ اور شوپیان کی پیر کی گلی کے قریب پیش آئے۔

پہاڑی اضلاع کشتواڑ، ڈوڈہ، رامبن، پونچھ اور راجوری میں ہر مہینے دلدوز سڑک حادثات ہوتے رہے ہیں۔

مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ حکومت کی لاپروائی کی وجہ سے آئے روز دلدوز سڑک حادثات پیش آتے ہیں۔ جو ان ڈرائیوروں کے خلاف کوئی ٹھوس کاروائی نہیں کر رہے ہیں۔

انکا کہنا ہے کہ ان پہاڑی اضلاع میں تنگ اور خستہ حال سڑکیں اور اوورلوڈنگ مسافروں کے لیے خطرناک ثابت ہو رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ محکمہ ٹریفک کاروائی کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے، وہیں محکمہ ٹرانسپورٹ غیر قانونی طور ڈرائیونگ لائسینس اجرا کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سڑک حادثات کے بعد کسی بھی افسر یا عہدیدار کے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہیں کی جارہی ہے۔ اور حکومت افسوس کے علاوہ کچھ نہیں کرپا رہی ہے۔

محکمہ ٹریفک کے آئی جی پی آلوک کمار نے اس ضمن میں بات کرنے سے انکار کردیا۔
حکومت و ریاستی انتظامیہ کو چاہیے کہ سڑک حادثات پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے تاکہ مستقبل میں ان کی تعداد میں کمی لائی جاسکے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details