پارکور کا کھیل یورپ سے نکل کر اب کشمیر کی گلیو ں تک پہنچ گیا ہے۔کشمیر میں اس کھیل کو متعارف کرانے کا سہرا باصلاحیت نوجوانوں کے سر جاتا ہے۔ پوری دنیا کے ساتھ ساتھ وادی میں بھی پارکور مقبول ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ وادی کے نوجوان اس کھیل کی جانب راغب ہوتے نظر آرہے ہیں اور اکثر یہاں کے باغات میں اس فن کی مشق کرتے نظر آرہے ہیں۔
پارکور کھیل کے ٹرینر اور فیسٹ اکیڈمی کے مالک زاہد شاہ کا کہنا ہے کہ' اس کھیل کا اپنا کوئی اصول و ضوابط اب تک نہیں ہے، کھلاڑی اپنے قوانین خود بناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک نیا کھیل ہے اور تقریباً 20 برس قبل اس کا نام منظر عام پر آیا ہے۔ انہوں نے کیا کہ اس کھیل کی شروعات فرانس میں ہوئی، پھر یورپی ممالک پہنچا، اس کے بعد امریکہ۔ بھارت میں کھیل سنہ 2006 میں شروع کیا گیا اور پھر چار سال بعد کشمیر میں سنہ 2010 میں نوجوانوں نے اس کھیل کے جانب راغب ہوئے ہیں
شاہ کے کہنا ہے شروعات میں اُن کو بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جیسا کہ ہر ایک نائی چیز کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب سب کو سمجھ آیا تو سب کا ساتھ بھی ملا اور تعریف بھی ہوئی۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ "پارکور کا مستقبل کشمیر میں بہتر نظر آرہا ہے۔ جب ہم مشق کرتے ہیں تو لوگ دیکھتے رہتے ہیں کیونکہ یہ کھیل کافی پرکشش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹریننگ کے لیے کافی لوگ آگے آتے ہیں لیکن پھر چند ہی ایسے ہوتے ہیں جو آخر تک ڈٹے رہتے ہیں۔ اس کھیل کا مشق آسان نہیں ہوتا۔ شاہ کا کہنا ہے کہ اکثر لوگ اس کھیل کو دیکھنے کے لیے فرمائش کرتے رہتے ہیں لیکن وہ سماجی اور سرکاری قوانین کا احترام کرتے ہیں۔ اُن کے لیے آزادی کا مطلب اپنے خیالات کو بنا کسی پابندی کے اظہار کرنا ہے۔