جموں و کشمیر مین دفعہ 370 کی منسوخی کی مکالفت مین بنے ہند نواز جماعتوں کے اتحاد پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن یا پی اے جی ڈی نے ہفتہ کو ترقی،امن، نوکریوں اور سرمایہ کاری سے متعلق مرکز میں قائم بی جے پی حکومت اور مقامی انتطامیہ کے دعوؤں پر ایک وائٹ پیپر جاری کیا ہے۔
'دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد ترقی محض ایک فریب ہے' وائٹ پیپر میں الائنس نے بی جے پی حکومت کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اتحاد کا مقابلہ کرے۔ الائنس نے حدبندی کمیشن کی تجاویز کو بھی غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ سب کچھ جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ کے تحت کیا جا رہا ہے جو خود غیر قانونی ہے۔"PAGD on Delimitation Commission Draft
پی اے جی ڈی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی گپکار میں واقع رہائش گاہ پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الائنس کے ترجمان محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ آج اتحاد کے تمام ارکان بشمول پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی، اے این سی کے نائب صدر مظفر شاہ، دیگر ارکان جسٹس(ر) حسنین مسعودی نے حد بندی کمیشن کی تازہ تجاویز اور سفارشات سمیت اہم مسائل پر غور کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ" تنظیم نو ایکٹ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے اور ہم اس بات پر قائم و دائم ہیں کہ پانچ اگست 2019 کو جو فیصلے لیے گئے جن کے تحت دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا اور ریاست کو دو حصوں میں منقسم کیا گیا وہ سب غیر آئینی اور غیر قانونی تھے۔"
تاریگامی، جو اصل میں مارکسوادی کیمونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور 1996 سے مسلسل اسمبلی میں کولگام حلقۂ انتخاب کی نمائندگی کرتے تھے، نے کہا کہ پی اے جی ڈی حد بندی کشمین کے خلاف نہیں ہے لیکن یہ عمل ملک میں سال 2026 میں انجام دیا جانے والا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ "حد بندی عمل جموں و کشمیر یونین ٹریٹری میں ہو رہا ہے جبکہ لداخ یونین ٹریٹری میں سر نو حد بندی نہیں ہو رہی ہے اور سات نشستوں کو بڑھایا جا رہا ہے جو ہماری سمجھ سے باہر ہے"
تریگامی کا کہنا ہے کہ " پی اے جی ڈی یہ سمجھنے میں ناکام ہے کہ سات سیٹیں کیوں بڑھائی گئیں اور ایک یا نو کیوں نہیں۔ ہم بھارت کی عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے ضمیر کی بات سنیں اور جموں و کشمیر کے لوگوں کے درد کو سمجھیں۔"
یہ بھی پڑھیں:PAGD on Delimitation : 'حد بندی کمیشن سفارشات سے عوامی ناراضگی میں اضافہ ہوا ہے'
اُن کا مزید کہنا ہے کہ "جموں و کشمیر واحد ریاست اور پہلی ریاست تھی جہاں یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم مفت کرائی گئی۔ بی جے پی کے نئے کشمیر بنانے کے تحت یو اے پی اے، پی ایس اے اور گرفتاریاں شامل ہیں اس کے علاوہ ہر اس آواز کو دبانا ہے جو بی جے پی کی پالیسیوں پر اعتراض کرتی ہے۔"
یوسف تاریگامی نے کہا کہ بی جے پی کے نیا کشمیر میں سیاسی ورکروں اور پریس پر قدغن ہے اور ان کی پالسیوں کے خلاف بات کرنے والوں کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔
دفعہ 370 کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا ہے کہ "5 اگست 2019 کو جو کچھ بھی ہوا ایک زبردستی فیصلہ تھا۔ کشمیریوں، جموں اور لداخیوں کی خاموشی کر 5 اگست 2019 کے فیصلوں کی قبولیت کے طور پر غلط مت سمجھیں۔"
پی اے جی ڈی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ "دفعہ 370 بھارت کے آئین کے تحت بھارت اور جموں و کشمیر کے لوگوں کے درمیان ایک پل تھا۔ خصوصی حیثیت کو واپس لینے سے اس تعلق کو بھی نقصان پہنچا جس کے تحت جموں و کشمیر کے لوگوں نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھا۔ دفعہ 370 کی منسوخی بھارت کے آئین اور جموں و کشمیر کی شناخت پر حملہ تھا۔ کل بنگال اور تمل ناڈو ایک اور کشمیر بن جائیں گے۔"
تاریگامی نے بھارت کی سول سوسائٹی پر زور دیا کہ وہ کشمیریوں کی پریشانیوں کو سنیں۔ انہوں نے کہا کہ وائٹ پیپر میں ہم نے واضح کیا ہے کہ آیا دفعہ 370 کو واپس لیا جا سکتا ہے، کیا دفعہ 35 اے کو ہٹایا جا سکتا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ "ہم جموں و کشمیر انتظامیہ اور بی جے پی حکومت کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ ہمارے وائٹ پیپر کا مقابلہ اپنے وائٹ پیپر سے کریں۔ ہم بی جے پی حکومت کو نوکریوں، سرمایہ کاری اور ترقی کی فراہمی کو چیلنج کرتے ہیں۔"
ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد لوگوں کے ساتھ نوکریوں، تعمیرو ترقی، سرمایہ کاری کے تمام وعدؤں کو پورا کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔
رئیل اسٹیٹ کے تحت سرمایہ کاری کرنے کے متعلق بات کرتے ہوئے ترجمان نے کہا "کس رئیل اسٹیٹ کی بات کرتے ہیں ہمیں بتائیں کہ دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد جموں کے کتنے نوجوانوں کو نوکری دی گئی کشمیر کی بات چھوڑیں۔"
انہوں نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کے اراکین کو ایک بحث و مباحثے میں شرکت کی دعوت دیں گے اور اس کی کاپیاں صدر جمہوریہ کی خدمت میں ارسال کریں گے۔