جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے آزادی کا امرت مہا اتسو کے سلسلے میں جموں اور سرینگر کے کالجز میں سوریہ نمسکار Surya Namaskar کا اہتمام کرنے کے احکامات کی وادی کے سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے شدید مذمت کی۔
سوریہ نمسکار کرنا اسلام میں جائز نہیں ہے قابل ذکر ہے کہ ڈائریکٹر کالجز نے ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کالج سربراہان کو ہدایت دی ہے کہ طلبہ و عملہ دونوں کو سوریہ نمسکار پروگرام Surya Namaskar Program میں شرکت کو یقینی بنائیں۔ جموں و کشمیر کے مفتی اعظم مفتی ناصر الاسلام Grand Mufti Mufti Nasir al-Salam نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ کسی بھی مذہب میں حکام کی مداخلت قابل قبول نہیں ہے۔
وہیں انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حکمنامے کی پاسداری کرنا ملازمین کے لیے ضروری نہیں ہے۔ ایل جی کے مشیر فاروق خان نے بتایا کہ سرکار کے حکمنامے کو سیاسی اغراض کے لیے اچھالا جارہا ہے۔
فاروق خان کا کہنا ہے کہ ملازمین کے لیے لازمی نہیں ہے کہ وہ سوریہ نمسکار کرے۔
ماہر قوانین کہتے ہیں کہ ایسے حکمنامے اجرا کرنے آئین کے خلاف ہے اور بھارت کے آئین کے مطابق کسی بھی فرد یا جماعت پر حکومت کوئی مذہبی ہدایت جاری نہیں کر سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:Muslim Organizations on Surya Namaskar Program: سوریہ نمسکار پروگرام پر مسلم تنظیموں نے ناراضگی کا اظہار کیا
کشمیر بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری جی این شاہین کا کہنا ہے کہ آئین کے مطابق ایسے ہدایت جاری کرنا غیر قانونی ہے۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے اس معاملے پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ مکر سنکرانتی منانے کے لیے مسلم طلبہ کو یوگا سمیت کچھ بھی کرنے کے لیے کیوں مجبور کیا جارہا ہے ؟ مکر سنکرانتی ایک تہوار ہے اور اسے منانا یا نہ منانا ایک ذاتی انتخاب ہونا چاہئے نہ کہ جبراً، اسے ہر فرد پر مسلط کرنا مناسب نہیں ہے۔ عمر عبداللہ نے مزید لکھا کہ اگر اسی طرح غیر مسلم طلبہ کو عید منانے کا حکم جاری کیا جائے تو کیا بی جے پی خوش ہوگی؟ وہیں سابق وزیر اعلیٰ و پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے بھی ٹویٹر پر اس حکم نامے کی سخت الفاظ میں نکتہ چینی کی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی غلط مہم جوئی کا مقصد کشمیریوں کی تذلیل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طلباء اور عملے کو مذہبی مقاصد کے لئے مسلط کردہ احکامات کے ذریعے سوریہ نمسکار کرنے پر مجبور کرنا حکومت کی فرقہ وارانہ ذہنیت کا واضح ثبوت ہے۔