نیشنل کانفرنس کے سینیئر رہنماؤں نے آج پارٹی ہیڈکوائٹر میں ایک اجلاس طلب کیا ۔اجلاس میں پارٹی کے جنرل سیکریٹری علی محمد ساگر،پارٹی کے ترجمان عمران نبی ڈار سمیت پارٹی کے سینیئر رہنماؤں نے شریک کی۔
علی محمد ساگر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل کانفرنس قیادت نے جو فیصلہ حد بندی کمیشن کے ڈروفٹ Delimitation Commission Draft پر لیا اس پر پارٹی کے ارکان نے تائید کی ہیں۔
انہوں نے کہا حد بندی کمیشن کا رپورٹ جمہوریت،کمیشن کے پیرامیٹرس پر مبنی نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق کشمیر کی آبادی جموں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
این سی:حد بندی کمیشن سفارشات نامنظور علی محمد ساگر نے کہا کہ جو بھی فیصلہ پارٹی ہائی کمان نے لیا پارٹی کا ہر فرد اس فیصلے کے ساتھ ہیں۔انہوں نے کہا کہ بی اے جی ڈی کی جانب سے آج کی میٹنگ میں جو فیصلہ لیا گیا ہے پارٹی اس میں پیش پیش رہی گی۔
انہوں نے کہا کہ یکم جنوری کے پرامن احتجاج کے لیے نیشنل کانفرنس شامل رہی گی۔انہوں نے کہا کہ این سی کسی بھی صورت میں حد بندی کمیشن کے سفارشات کو تسلیم نہیں کرئی گی۔
یہ بھی پڑھیں:
Delimitation Commission Draft: حد بندی کمیشن کی سفارش، جموں کو 6 اسمبلی سیٹیں، کشمیر کو فقط ایک
واضح رہے حد بندی کمیشن برائے جموں وکشمیر کی سربراہی ریٹائرڈ جسٹس رنجنا پرکاش دیشائی کررہی ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر اور جموں وکشمیر کے ریاستی الیکشن کمیشنر حد بندی کمیشن کے ممبران ہیں جبکہ جموں وکشمیر کے پانچ ممبران پارلیمنٹ کمیشن کے ایسوسی ایٹ ممبران ہیں، جن میں نیشنل کانفرس کے تین ارکان پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبدللہ نے، جسٹس حسنین مسعودی ،محمد اکبر لون کے علاوہ بی جے پی کے دو ممبران پارلیمنٹ ڈاکٹر جتندر سنگھ اور جگل کشور شرما شامل ہیں۔
واضح رہے کہ سنہ 2002 میں فاروق عبد اللہ کی حکومت نے حد بندی پر سنہ 2026 تک پابندی عائد کر دی تھی۔ تاہم تنظیم نو قانون کے اطلاق کے بعد مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر میں نئے اسمبلی حلقوں کے قیام کے لیے حد بندی کمیشن تشکیل دے کر یونین ٹریٹری میں مزید سات سیٹوں کا اضافہ کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
سابق ریاست جموں و کشمیر میں اسمبلی حلقوں کی تعداد 111 تھی جن میں 87 پر ہی انتخابات منعقد ہوتے تھے باقی 24 سیٹوں کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے لیے مخصوص رکھا گیا ہے۔