جموں و کشمیر میں گذشتہ برسوں کی طرح امسال بھی سیاسی ہلچل دیکھی گئی جبکہ کوگیوں کی گن گرج نے تھمنے کا نام نہیں لیا۔ موسم کی مار، عالمی وبا اور احتیاطی لاک ڈاؤن سے امسال بھی عوام کو سامنا کرنا پڑا۔
نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیمکریٹک پارٹی، پیپلز کانفرنس، اپنی پارٹی کے علاوہ قومی سیاسی جماعتوں بھارتیہ جانتا پارٹی اور کانگریس نے وادی میں اس سال سیاسی سرگرمیوں میں Political Activty in J&K تیزی لائی۔ ان جماعتوں نے عوام کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے نئے پرانے سیاسی داؤ پیچ کو نئی پیکنگ میں بیچنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
سرحدیں اگرچہ بیشتر ایام خاموش رہیں، تاہم امسال جنوری ماہ کے آخر تک بھی دونوں جوانب سے گولیوں کا تبادلہ نہیں ہوا۔ جنوری ماہ کی 29 تاریخ کو عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جنوبی کشمیر کے ترال علاقے میں تصادم آرائی دیکھنے کو ملی، جس میں حزب المجاہدین کے تین عسکریت پسند ہلاک Encounters of J&K ہلاک ہوئے ہیں۔
رواں سال جموں و کشمیر میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ عسکریت پسندوں کا آمنا سامنا جاری رہا جس میں کئی عسکریت پسند اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار ہلاک ہوئے۔ سب سے بڑی تصادم آرائی پونچھ جنگلاتمیں دیکھنے کو ملی، جو وقفے وقفے سے ایک ہفتے تک جاری رہی۔ اس تصادم میں 9 اہلکاروں کی ہلاکت ہوئی۔
مجموعی طور پر سرحدوں پر خاموشی ہی دیکھنے کو ملی جس کی وجہ سے سرحدی آبادی نے راحت کی سانس لی۔ سال بھر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے 664 واقعات پیش آئے اور دراندازی کی 28 کوششیں بھی ہوئیں۔ ان کوششوں میں 4 اہلکار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، تاہم کوئی بھی شہری ہلاکت واقع نہیں ہوئی۔
اکتوبر میں اقلیتی طبقے سے وابستہ کئی شہریوں کو عسکریت پسندوں نے کشمیر میں نشانہ بنایا جن میں سرینگر کے معروف دواساز اور دو استاد بھی شامل تھے۔ ان ہلاکتوں کی وجہ سے اقلیتی طبقے میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہوا، جبکہ سیاسی پارٹیوں نے کھل کر ان ہلاکتوں کی مذمت کی اور ان کاروائیوں کو وادی کی قدیم روایات کے منافی اور آپسی بھائی چارے کے خلاف سازش قرار دیا۔
نومبر کے وسط میں سرینگر کے حیدر پورہ میں مبینہ تصادم آرائی Hyderpora Encounterکے دوران پولیس نے 4 عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا، تاہم یہ تصادم متنازع ثابت ہوا اور برزلّہ سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر اور راول پورہ کے ڈاکٹر کے اہل خانہ نے پولیس کے دعوؤں کو مسترد کیا۔ کئی روز تک احتجاج کے بعد دونوں ہلاک شدہ افراد کے جسد خاکی کو قبروں سے واپس نکال کر ورثا کے سپرد کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا گیا۔
2021 میں جموں و کشمیر میں سال بھر سیاسی ہلچل بھی جاری رہی اور علاقائی پارٹیوں نے جہاں ریاستی درجے کی واپسی کا مطالبہ کیا، وہیں دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف عدالت عظمیٰ میں لڑنے کا سلسلہ جاری رکھنے کا عزم بھی دہریا۔
نیشنل کانفرنس ،پی ڈی پی ،اپنی پارٹی اور پیپلز کانفرنس نے سال بھر جموں و کشمیر میں سیاسی ماحول کو اپنے بیانات سے گرم رکھا۔ سال کا سب سے بڑا دھچکہ نیشنل کانفرنس کو لگا، جن کے صوبائی صدر جموں دیوندر سنگھ رانا نے پارٹی کو الوداع کہہ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔ وہیں پی ڈی کے سینیئر رہنماؤں یاسر ریشی اور نظام الدین بٹ نے بھی پیپلز کانفرنس کے ساتھ اپنا سیاسی کریئر جوڑ لیا اور پی ڈی پی کو خیرباد کہا۔
جون کے آخری ہفتے میں وزیر اعظم نریندر مودی نے جموں کشمیر کے رہنماؤں کو دہلی بات چیت کے لیے طلب کیا گیا۔ اس میٹنگ میں سابق وزرائے اعلیٰ غلام نبی آزاد، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے علاوہ مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ، سید محمد الطاف بخاری سمیت 14 دیگر ہند نواز لیڈران نے شرکت کی۔
وزیر ا عظم نریندر مودی نے دل کی دوری اور دہلی سے دوری مٹانے پر زور دیا۔ وہیں پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد غنی لون نے بھی گُپکار الائنس کو الوداع کہا۔
حدبندی کمیشن کی طرف Delimitation Commission Report سے جموں خطے کے لیے 6 اور وادی کے لیے ایک اسمبلی نشست بنائے جانے کی تجویز پر سیاسی لیڈر پھر سے میدان میں اترے اور بیشتر رہنماؤں نے ان سفارشات کی مخالفت کی۔
جہاں ایک طرف خطہ چناب میں محبوبہ مفتی عوامی اجلاس سے خطاب کرتی نظر آئیں، وہیں سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد نے سال کے آخری ایام میں عوام کو راغب کرنے کے لیے کئی بیانات دیے۔ سال بر سیاسی لیڈروں نے ایک دوسرے کو نشانہ بناتے ہوئے سماجی ویب سایٹوں پر بیانات جاری کئے۔
17فروری کو 20 سے زائد غیر ملکی سفیروں اور سینیئر سفارت کاروں کا ایک گروپ دو روزہ دورے پر جموں و کشمیر پہنچا۔ دورے کا مقصد مرکز کے زیر انتظام علاقے میں حالات معمول پر لانے اور ترقی کو فروغ دینے کے لیے انتظامیہ کی کوششوں کو دکھانا تھا۔
دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ بھی اکتوبر کے آخری ہفتے میں 3 روزہ دورے کے لیے کشمیر آئے اور سیاحتی و ترقیاتی پراگرامز و پروجیکٹس کا افتتاح کیا۔
جموں میں عوامی جلسے سے خطاب کے علاوہ جھیل ڈل میں ہاوس بوٹ میلے کا افتتاح، صوفیانہ پروگرام میں شرکت اور افسراں کے ساتھ تبادلہ خیال کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ جولائی، ستمبر اور اکتوبر میں قریب 200 ممبران پارلیمان نے علیٰحدہ علیٰحدہ کمیٹیوں کی حیثیت سے جموں کشمیر کا دورہ کیا اور عوامی رابطہ عامہ پروگرامز میں شرکت کی۔