اردو

urdu

By

Published : Jun 10, 2019, 4:55 PM IST

Updated : Jun 10, 2019, 5:53 PM IST

ETV Bharat / city

کھٹوعہ ریپ و قتل مقدمے میں تین مجرموں کو عمر قید کی سزا

ریاست جموں و کشمیر میں کٹھوعہ ریپ اور قتل معاملے میں تین مجرموں، سانجی رام، دیپک کھجوریہ اور پرویش کمار کو عمر قید کی سزا سنائی گئی جبکہ دیگر مجرموں کو پانچ پانچ برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ تین عمر قید کی سزا پانے والوں کو ایک ایک لاکھ روپے جرمانہ اور پانچ برس قید کی سزا والوں کو پچاس ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔

فائل فوٹو


پنجاب کے ضلع پٹھان کوٹ میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ نے پیر کے روز صوبہ جموں کے ہندو اکثریتی ضلع کٹھوعہ کے رسانہ نامی گاؤں میں سنہ 2018ء کے جنوری میں پیش آئے آٹھ سالہ کمسن بکروال لڑکی کی وحشیانہ عصمت دری و قتل کیس کے آٹھ میں سے چھ ملزمان کو مجرم قرار دیتے ہوئے تین کو عمر قید کی سزا جبکہ دیگر تین کو پانچ پانچ سال قید کی سنائی۔

کورٹ نے ساتویں ملزم وشال جنگوترا کو ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی کی بناء پر بری کردیا۔ آٹھواں ملزم جو کہ نابالغ ہے اور جس نے کمسن بچی پر سب سے زیادہ ظلم ڈھایا تھا، کے خلاف ٹرائل عنقریب جوینائل کورٹ میں شروع ہوسکتی ہے۔

کیس کے ملزمان میں عصمت دری و قتل واقعہ کے منصوبہ ساز سانجی رام، اس کا بیٹا وشال جنگوترا، سانجی رام کا بھتیجا (نابالغ ملزم)، نابالغ ملزم کا دوست پرویش کمار عرف منو، ایس پی او دیپک کھجوریہ، ایس پی او سریندر کمار، تحقیقاتی افسران سب انسپکٹر آنند دتا اور ہیڈ کانسٹیبل تلک راج شامل تھے۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج پٹھان کوٹ ڈاکٹر تجویندر سنگھ نے منصوبہ ساز سانجی رام، پرویش کمار اور ایس پی او دیپک کھجوریہ کو عمر قید کی سزا جبکہ دیگر تین بشمول ایس پی او سریندر کمار، سب انسپکٹر آنند دتا اور ہیڈ کانسٹیبل تلک راج کو پانچ پانچ سال قید کی سزا سنائی۔

جج موصوف نے سانجی رام کے بیٹے وشال جنگوترا کو ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی کی بناء پر بری کردیا۔

چارج شیٹ میں سانجی رام پر عصمت دری و قتل کی سازش رچانے، وشال، نابالغ ملزم، پرویش اور ایس پی او دیپک کھجوریہ پر عصمت دری و قتل اور ایس پی او سریندر کمار، تحقیقاتی افسران تلک راج و آنند دتا پر جرم میں معاونت اور شواہد مٹانے کے الزامات لگے تھے۔

متاثرہ آٹھ برس کی بچی کے والد کے ذاتی وکیل مبین فاروقی نے عدالت کے احاطے میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ مجرموں کو سزائیں ملنے سے سچ کی جیت ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا: 'سچ کی جیت ہوئی ہے۔ یہ جیت تمام کمیونٹیز ہندؤوں، مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کی جیت ہے'۔

ملزمان کے وکیل اے کے ساونی نے نامہ نگاروں کو بتایا: 'جج صاحب ڈاکٹر تجویندر سنگھ نے ایک سال تک اس کیس کے سوا کوئی دوسرا کیس ہاتھ میں نہیں لیا۔ اس کے لئے ہم اُن کی سراہنا کرتے ہیں۔

اب سوال ہے کہ ہم نے بحیثیت وکلاء صفائی آج کیا کھویا کیا پایا۔ وشال جنگوترا کی جیت ہوئی ہے۔ وہ کیس میں کہیں بھی ملوث نہیں تھے۔

تین ملزمان سانجی رام، دیپک کھجوریہ اور پرویش کو قتل، اجتماعی عصمت دری، اغوا کاری، سازش اور غیر قانونی حراست سے متعلق دفعات کے تحت سزا سنائی گئی۔ دیگر ملزمان سب انسپکٹر آنند دتا، ہیڈ کانسٹیبل تلک راج اور ایس پی او سریندر کمار کو شواہد مٹانے سے متعلق دفعہ 201 کے تحت سزا سنائی گئی'۔

ملزمان کے ایک اور وکیل انکر شرما نے کہا: 'ہم فیصلے سے بہت حیران ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ یہ ایک برا فیصلہ ہے۔ یہ ایک متعصبانہ فیصلہ ہے۔ ہم اس کو چیلنج کریں گے۔ ہم فیصلے کی کاپی حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ عدالوں کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے'۔

3 جون کو جج ڈاکٹر تجویندر سنگھ نے استغاثہ اور وکلاء صفائی کی طرف سے پیش کئے گئے حتمی دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ رکھا تھا اور اسے دس جون کو سنانے کا امکان ظاہر کیا تھا۔

کٹھوعہ معاملہ بعض سیاسی جماعتوں کے لیڈران کی طرف سے ملزمان کو بچانے کی کوششوں، 'ہندو ایکتا منچ' نامی تنظیم کی طرف سے ملزمان کے حق میں ترنگا بردار جلوس برآمد کرنے، کٹھوعہ میں وکلاء کی جانب سے کرائم برانچ کو ملزمان کے خلاف چارج شیٹ دائر کرنے سے روکنے اور متاثرہ کنبے کے سماجی بائیکاٹ کے سبب عالمی سطح پر خبروں میں رہا۔ بچی کے حق میں درجنوں ممالک میں ریلیاں نکالی گئی تھیں۔

بتادیں کیس کی 'ان کیمرہ' اور 'روزآنہ بنیادوں' پر سماعت قریب ایک سال تک جاری رہنے کے بعد 3 جون کو اختتام پذیر ہوئی اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج ڈاکٹر تجویندر سنگھ نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے 10 جون کو سنانے کا امکان ظاہر کیا تھا۔

سپریم کورٹ کے احکامات پر 31 مئی 2018ء کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ پٹھان کوٹ میں کیس کی 'ان کیمرہ' اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہوئی تھی۔ اس دوران عدالت میں کیس کی قریب 275 سماعتیں ہوئیں اور 132 افراد عدالت میں بطور گواہ پیش ہوئے۔

کیس کی تحقیقات جموں وکشمیر پولیس کی کرائم برانچ نے کی تھی اور ملزمان کے خلاف چارج شیٹ 9 اپریل 2018ء کو پیش کی تھی۔ کرائم برانچ نے تحقیقات کے دوران 130 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے تھے جن میں سے استغاثہ کی طرف سے 116 گواہ عدالت میں پیش کئے گئے۔ ایک مخصوص طبقے سے تعلق رکھنے والے چند گواہ عدالت میں اپنے اعترافی بیانات سے مکر بھی گئے۔

ضلع انتظامیہ پٹھان کوٹ نے عدالت کے اردگرد تین دائروں والی سیکورٹی کا بندوبست کیا تھا۔ کسی بھی فرد بشمول نامہ نگاروں کو عدالتی کمرے کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جبکہ ملزمان کو پنجاب پولیس نے بلٹ پروف گاڑی میں عدالت لایا۔

استغاثہ کی طرف سے کیس کی پیروی سپیشل پبلک پراسیکیوٹرس سنتوک سنگھ بسرا اور جگ دیش کمار چوپڑا نے کی جبکہ انہیں متعدد دیگر وکلاء بشمول کے کے پوری، ہربچن سنگھ اور مبین فاروقی (متاثرہ بچی کے والد محمد یوسف پجوال کے ذاتی وکیل) انہیں اسسٹ کررہے تھے۔ ملزمان کی طرف سے کیس کی پیروی اے کے ساونی، سوباش چندر شرما، ونود مہاجن اور انکر شرما نے کی۔

قابل ذکر ہے کہ ضلع کٹھوعہ کے تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاﺅں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی جو کہ گجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھتی تھی، کو 10 جنوری 2018ء کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نزدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔ کرائم برانچ پولیس نے مئی کے مہینے میں واقعہ کے سبھی 8 ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کیا۔

کرائم برانچ نے اپنی تحقیقات میں کہا تھا کہ آٹھ سالہ بچی کو رسانہ اور اس سے ملحقہ گائوں کے کچھ افراد نے عصمت دری کے بعد قتل کیا۔ تحقیقات کے مطابق متاثرہ بچی کے اغوا، عصمت دری اور سفاکانہ قتل کا مقصد علاقہ میں رہائش پذیر چند گوجر بکروال کنبوں کو ڈرانا دھمکانا اور ہجرت پر مجبور کرانا تھا۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ کمسن بچی کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیاتھا جہاں اسے نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلے اسے مسلسل درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔

Last Updated : Jun 10, 2019, 5:53 PM IST

For All Latest Updates

ABOUT THE AUTHOR

...view details