سرینگر:نوروز یعنی فارسی نئے سال کا آغاز ہے۔ تاریخی طور پر نوروز ایران کا قومی تہوار ہے وہیں کشمیر میں بھی اس دن کی بڑی روایتی اور ثقافتی اہمیت ہے۔ اس دن کو موسم بہار کے آغاز کی علامت کے طور پر منانے کے علاوہ کشمیری لوگ خاص طور پر شیعہ برادری کے افراد اس موقع کو مذہبی جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ اس دن کو مختلف اسلامی کارناموں سے منسوب کرتے ہوئے، اس عقیدے کے لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں، رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنے جاتے ہیں، نئے کپڑے پہنتے ہیں اور اس موقع پر جشن کی دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔
اگرچہ 21 مارچ کو پوری دنیا میں شجرکاری کے عالمی دن کے طور پر بھی منایا جاتا ہے، لیکن کشمیر میں اس دن بہت سے لوگ جونک کے علاج کی قدیم روایت کو اپناتے ہیں۔ ایک روایتی طریقہ کار جہاں خون چوسنے والے شفا دینے والے بن جاتے ہیں۔اس دن بڑی تعداد میں لوگ جونک کے علاج کے پریکٹیشنرز کے پاس جاتے ہیں، کیونکہ وادی میں عام عقیدے کے مطابق اس خاص دن کو زیادہ موثر سمجھا جاتا ہے۔
وادی میں کئی مقامات پر قطار میں لوگ اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے طریقہ کار سے گزرنا ایک عام سی بات ہے۔ درگاہ حضرت بل پر، علاج کروانے کے لیے سینکڑوں لوگ پریکٹس کرنے والوں کے پاس جمع ہوتے ہیں۔ عیدگاہ سرینگر سے تعلق رکھنے والے نثار احمد جو اپنی کمر درد کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں کا کہنا ہے کہ "لیچ تھیراپی کے لیے میں پہلی بار آیا ہوں، میں نے ہر قسم کی دوائیاں آزمائی ہیں لیکن میرے کمر کی درد ٹھیک نہین ہوئی اب مجھے امید ہے کہ اس سے مدد ملے گی۔" اُن کا مزید کہنا تھا کہ "یہ علاج کرتے وقت درد بِلکُل بھی نہیں ہوا۔ عام طور پر انجکشن کے وقت سوئی چبنے سے درد ہوتا ہے ویسا بھی نہیں ہوا۔" سرینگر کے مہجور نگار کی رہنے والی ہدیٰ کا کہنا تھا کہ "میں بچپن سے یہ تھیراپی کروا رہی ہوں۔ درد نہیں ہوتا، بلکہ یہ کارگر ثابت ہوتی ہے۔ سردیوں میں فرسٹ بائٹ کی وجہ سے کافی پریشانی ہوتی تھی۔"