حریت کانفرنس کے سینیئر رہنما سید علی گیلانی کی وفات کے بعد عام رائے یہ ہے کہ کشمیر کی علیحدگی پسند تحریک تعطل کا شکار ہوگی کیونکہ گیلانی سخت گیر موقف کے حامی تھے جنہوں نے ہمیشہ مذاکرات سے دوری اختیار کی تھی۔ وادیٔ کشمیر کے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ گیلانی کے سیاسی اصول تھے جس پر انہوں نے کبھی بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور ہمیشہ اصولوں کی پاسداری کرتے رہے، اسی لیے کشمیریوں کی اکثریت ان کی حمایت کرتی تھی۔
'کشمیر کی تحریک گیلانی کے بعد بھی جاری رہے گی'
گیلانی کا انتقال یکم ستمبر کی رات سرینگر کے حیدرپورہ میں واقع ان کی رہائش گاہ میں ہوا تھا جب کہ ان کی تدفین سخت ترین سکیورٹی میں عمل میں لائی گئی۔ جس کے سبب لواحقین نے الزام عائد کیا کہ انہیں آخری رسومات انجام دینے کی پولیس نے اجازت نہیں دی۔
کشمیر کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی مبصرین نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ گیلانی کی زندگی اور موت، علیحدگی پسند تحریک کے لیے ایک میراث رہی۔
سیاسی مبصر اور اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر صدیق واحد نے بتایا کہ گیلانی نے اپنی سیاسی اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا جس کے باعث ان کو بے حد مقبولیت حاصل تھی۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ بات درست نہیں تھی کہ گیلانی مذاکرات سے پرہیز کرتے تھے تاہم وہ مذاکرات سے قبل کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دینے کی شرط رکھا کرتے تھے‘۔ ان کا کہنا ہے کہ گیلانی کی وجہ سے علیحدگی پسند سیاست کو ایک الگ پہچان ملی اور وہ اپنے موقف پر اٹل تھے۔
تجزیہ نگار شیخ شوکت جو سابق قانون کے پروفیسر رہ چکے ہیں نے بتایا کہ گیلانی کا مذاکرات میں حصہ نہ لینے کا عمل ان کے سیاسی تجربہ پر مبنی تھا۔
مزید پڑھیں:گیلانی کی وفات: کشمیر میں تیسرے روز جزوی بندشیں برقرار
انہوں نے کہا کہ کشمیر کی تحریک گیلانی سے قبل بھی تھی اور ان کے انتقال کے بعد بھی جاری رہے گی کیونکہ یہ تحریک کشمیری عوام کی خواہش پر مبنی ہے اور جب تک عوام کو کامیابی کے حصول کا احساس نہ ہوگا تب تک یہ ختم نہیں ہوسکتی ہے۔