عالمگیری وباءکورونا وائرس سے نمٹنے میں جہاں ملک مصرف تھا، وہیں دوسری طرف نئی دہلی میں بی جے پی کی سربراہی والی حکومت مرکزی زیر انتظام ریاست جموں وکشمیر کی تنظیم نو (ریاستی قوانین کی اصلاح) حکم نامہ2020کے تحت اقامتی قانون کو نئی اصطلاح متعارف کرنے میں مصروف تھی۔ جموں و کشمیر میں نئی اصطلاح کا عمل پوری طرح سے سیاسی حیثیت کا حامل ہے اور مشترکہ طور پر اس کی مزاحمت کی گئی تھی تاکہ مرکزی حکومت کو پیچھے ہٹنے اور اور اپنی سابقہ اصطلاح کو مد نظر رکھتے ہوئے نیا نوٹیفکیشن جاری کرنے پر مجبور کیا جائے۔ نیا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے بعداگر چہ مرکزی زیر انتظام والے اس علاقے کے کچھ سیاست دانوں نے کچھ حد تک راحت محسوس کی تاہم خدشات اب بھی موجود ہے۔
اس معاملے میں جانے سے قبل جموں و کشمیر کے اقامتی مسئلہ کو زیر غور لایا جائے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے5اگست کو جموں کشمیرکو خصوصی حیثیت فراہم کرنے والی آئین ہند کی دفعہ370کی تنسیخ اور جموں کشمیر کو دو مرکزی زیر انظام والے علاقوں جموں کشمیر اور لداخ میںتقسیم کرنے سے قبل جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے آئین کی رﺅسے اس بات کو طے کیا جاتا تھا کہ کون جموں کشمیر کا اقامتی ہیں اور کون نہیں ہے۔اس وقت جموں و کشمیر کے اقامتی شہریوں(کچھ مستنثیات کے ساتھ بشمول مرکزی سیول سروس نوکریوں کے) کو ہی ریاست میں نوکریوں کیلئے رجووع کرنے کا حق حاصل تھا۔ان ہی شہریوں کو غیرمنقولہ جائیداد خریدنے کا بھی حق حاصل تھا۔
حقیقت میں ، جموں و کشمیر کے اقامتی معاملہ آئین ہند کی ک دفعہ 370سے پہلے ہے۔ ریاست کے آخری حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے سنہ 1927 اور سنہ 1932 میں بنائے گئے قوانین کے تحت شہریت کی اصطلاح بیان کی گئی ہے اور شہریوں کو حاصل فوائدوں کی بھی وضاحت کی گئی تھی۔ ان قوانین کو بھارت کی آزادی کے بعد آئین ہند کی دفعہ370اور35ائے کو مناسب انداز میں شامل کیا گیا۔
مرکزی حکومت کے پہلے حکم نامہ میں صرف گزیٹیڈ اسامیوں کو جموں کشمیر کے شہریوں کیلئے مخصوص رکھا گیا، جس کے نتیجے میں سیاسی گلیاروں نے اس حکم نامہ کوتنقیدکا نشانہ بنایا،جبکہ علاقائی جماعتوں نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور یہاں تک کہ منصہ شہود ہر معروض وجود میں آنے والی نئی جماعت جموں کشمیر اپنی پارٹی نے زبانی احتجاج کیا، جس کے بارے میںبتایا جاتا ہے کہ اس کو مرکزی حمائت حاصل ہے ۔وادی میں غیر یقینیت اور فکر تشویش کا ماحول دیکھتے ہوئے نئی دہلی نے ان قوانین میں ترمیم کی۔قواعد میں یہ بھی شرط عائد کی گئی ہے کہ مرکزی زیر انتظام والے علاقے سے باہر کے افراد ، جو 15سال سے جموں و کشمیر کے رہائشی ہیں ، انہیں جموں کشمیر کا اقامتی شہری سمجھا جائے گا اور اس حیثیت سے وہ نوکریوں کے لئے درخواست دے سکیں گے۔
حتی کہ وادی نشین سیاسی طبقے نے ترامیم شدہ قوانین کی بھی مخالفت کی۔ پی ڈی پی کا کہنا تھا” ہمارے نوجوانون کے مستقبل کو تحفظ بنانا لازمی ہے اور حکومت ہند کو جموں کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے پر حملے سے متعلق خدشات کو دور کیا جانا چاہے۔نئی اقامتیوں کی شکل میں علامتی رعایت کے طور پر چور دروازے کو کھلا رکھا گیا ہے،جبکہ کورونا وائرس کے پھیلاﺅ کے نتیجے میں وبائی بیماری کے خطرے کے بیچ حکومت ہند کو اس پیشرفت پر کسی بھی ردعمل کا کوئی بھی خطرہ نہیں ہے۔
ریاست اور اس کی سیاسی اور نسلی تشکیل پر پائے جانے والے پائیدار اثرات کے علاوہ ، ترامیم سے قبل قانون کے بارے میں بھی فوری خدشات ہے۔ اطلاعات کے مطابق ، جموں و کشمیر میں تقریبا 84ہزار ملازمت کی آسامیاں خالی ہیں اورنئے اقامتی قانون سے بھرتی عمل میں جامع مضمرات پڑسکتے ہیں ،تاہم ترمیم کے بعد یہ باعث تشویش ہے۔ مرکزی حکومت نے غالباً اس کو بہتر طریقے سے پیش کیا اور پہلے صورتحال کو پرتناﺅ کیا( غیر اقامتی تمام ملازمتوں ماسوائے گزیٹیڈ اسامیوںکیلئے رجوع کرسکتے ہیں) اور بعد میں قواعد میں ترامیم کرکے رعایت دی۔
فیصلے کا وقت
جموں وکشمیر کیلئے نئے اقامتی قوانین کے فیصلے کا وقت حیران کن ہے(یا شائد نہیں) ۔ایک ایسے وقت پر جب پورا ملک عالمگیری وبا ءکرونا وائرس کی صورتحال کے خطرے سے لڑ رہا تھا،اس وقت مرکزی وزارت داخلہ نے سوچا کہ نئے قوانین کو متعارف کرنے کیلئے یہ وقت صحیح ہے۔اس نا مناسب طریقہ کار کے باوجود،مرکزی وزارت داخلہ کی منطق یہ ہے کہ کورونا وائرس سے متعلق لاک ڈاﺅن اور بندشوں کے نتیجے میں اس نوٹیفکیشن کے خلاف جسمانی لحاظ سے احتجاجی مظاہروں میں کمی ہوگی اور یہ تجزیہ درست بھی ثابت ہوا۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بندسابق وزراءاعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کی کورونا وائرس کے پھیلاﺅ کے بیچ رہائی عمل میں لائی گئی۔وادی سے تعلق رکھنے والے لوگوں بالخصوص جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کے ہمدردوں اور کارکنوں کیلئے اس سے بڑی خوشی اور مسرت کا مقام کیا ہوسکتا تھاکہ انکے لیڈروں کی رہائی عمل میں لائی گئی اور وہ مرکزی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کے بطور وہ سڑکوں پر نکل آتے۔
مضمرات
حقیقت یہ ہے کہ نئے قوانین بشمول اقامتی قوانین کا اطلاق جموں کشمیر میں ہوگا اور یہ اس بات کی عکاسی ہے کہ5اگست2019کو مرکز کی طرف سے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لئے کیے گئے فیصلے کو کسی بھی صورت میں وہ واپس لیں گے۔جب تک نئی دہلی میں نئی حکومت ہوگی ، جموں و کشمیر غالباً اچھی طرح سے مربوط ہوگی ، حکومت ہند کے ساتھ قانونی طور مستحکم ہوگی جس کی وجہ سے گھڑی کی سوئیوں کو واپس لانا مشکل ہوگا۔تاہم یہ صورتحال جموں کشمیر میں ریاست کی بحالی کیلئے خارج از امکان نہیں ہوسکتی۔حقیقت یہ ہے کہ نئی دہلی کے لیڈروں نے بار بار اس بات کو دہرایا کہ ایک دن جموں کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس دیا جائے گا۔جموں کشمیر میں متعارف کئے گئے نئے قوانین،صرف ریاست کی خصوصی حیثیت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کریں گے،نہ کہ ریاست کے سیاسی درجے کی حیثیت پر یہ اثر انداز ہونگے۔اس طرح ، یہ واضح کیا گیا ہے کہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کیا جاستا۔ نئی دہلی جموں و کشمیر کے سیاسی طبقے کی ساری توجہ ریاستی درجے کی بحالی پر مبذول کرائے گی ۔نئی دہلی کیلئے اس صورتحال کو ناپسند کرنے کیلئے کوئی بھی وجہ نہیں ہوسکتی۔