مَگس بانی کی جانب وادیٔ کشمیر کے نوجوانوں کا رجحان بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ کشمیر میں شہد کی چار اقسام ہیں جو نامیاتی شہد کی فارمنگ میں متعارف کرائی گئی ہیں۔ سنہ 2020 میں وادی میں 7200 کوئنٹل سے زیادہ شہد کی پیداوار درج کی گئی تھی جس میں صرف اننت ناگ ضلع سے 2015 کوئنٹل شہد شامل تھا۔ اس کے بعد سرینگر سے 1415 کوئنٹل پیداوار درج کی گئی تھی۔ Maintenance of Bee Colonies
سرینگر کے رہنے والے احمد بلال جو سنہ 2008 سے مَگس بانی کے ساتھ وابستہ ہیں کا کہنا ہے کہ 'اس کام میں کافی محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ وادی کی بات کریں تو مَگس بانی سے وابستہ افراد کو موسم سرما میں شہد کی مکھیوں کو گرم علاقوں کی جانب ہجرت كرنا پڑتی ہے تاکہ انہیں پھول مل سکیں اور مکھیوں کو بھی تحفظ ملے۔ احمد بلال نے کہا کہ 'ہجرت کے دوران کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سرینگر سے جموں جاتے وقت اکثر مٹی کے تودے گرنے کی وجہ سے قومی شاہراہ کئی روز کے لیے بند ہو جاتی ہے جس کے پیش نظر مکھیاں مر جاتی ہیں۔ یہاں دیگر ممالک کی طرح سہولیات فراہم نہیں کی جاتی۔ Honey-Producing Bees
احمد بلال نے کہا کہ حالیہ دنوں میں ہوئی ژالہ باری کی وجہ سے بھی کافی نقصان ہوا ہے۔ ہم عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے نقصان کی بھرپائی کی اُمید کر رہے تھے لیکن ژالہ باری نے امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اب اُمید ہے کہ اس موسم میں سرینگر سے 10 ٹن شہد کی پیداوار ہوگی۔ وادی میں شہد کی چار اقسام ہوتی ہیں وہیں بھارت میں کُل 20 اقسام پائی جاتی ہیں۔
احمد بلال کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ شہد کی مکھیوں کے ڈنک سے کئی امراض کا علاج ہوتا ہے اور بیرون ملک میں ڈاکٹرز اس کی صلاح بھی دیتے ہیں۔ وہیں انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہوئے احمد بلال نے کہا کہ 'اگر یہاں کی شہد کی بھی جی آئی (جغرافیائی انڈیکیشن) ٹیگنگ ہوگی تو اس سے کافی فائدہ ہوگا۔ اس وقت ہم ذاتی طور پر اس کو ملکی اور بیرون ملک بازاروں میں فروخت کرتے ہیں۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ 'ہمارا معیاری مال ہمیں کم قیمت پر فروخت کرنا پڑتا ہے کیونکہ بڑی کمپنیاں غیر معیاری شہد سستے داموں پر فروخت کرتی ہیں۔ شہد کتنا خالص ہے صرف لیباریٹری کی جانچ سے ہی پتہ چل سکتا ہے۔ حالات ایسے ہیں کہ چینی کمپنیاں بھی غیر معیاری شہد یہاں کے بازاروں میں فروخت کر رہی ہیں اور وہ اصلی شہد سے بھی خالص لگتا ہے۔ احمد کا کہنا ہے کہ مَگس بانی کا کام ہر کوئی نہیں کر سکتا اس میں کافی مشقت کرنی پڑتی ہے۔
احمد بلال کا کہنا ہے کہ 'انتظامیہ کی جانب سے ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد مَگس بانی کی صنعت قائم کی جا سکتی ہے۔ سبسڈی بھی ملتی ہے اور مشورے بھی۔ پورے سال دیکھ ریکھ کرنی پڑتی ہے، موسم سرما میں شوگر کینڈی بھی ان مکھیوں کو دینی ہوتی ہے تاکہ شہد کی پیداوار میں کمی نہ ہو۔ سب سے ضروری ہوتا ہے تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا۔
وہیں انتظامیہ بھی احمد بلال کے شہد کو جغرافیائی انڈیکیشن ٹیگ ملنے کے حق میں ہے۔ محکمۂ زراعت کے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ 'ہنی مشن کے تحت شہد کی پیداوار کے لیے انتظامیہ جی آئی ٹیگ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ شہد کی مصنوعات میں نوجوانوں کو کامیاب کاروبار چلانے میں مدد کرنے کی زبردست گنجائش ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'آئندہ پانچ برسوں میں علاقے میں تقریباً 7 لاکھ شہد کی مکھیوں کی کالونیاں قائم کرنے کا ارادہ ہے۔ امید ہے کہ سنہ 2025 تک اس صنعت سے 1.14 لاکھ افراد کو روزگار ملے گا۔ واضح رہے کہ سنہ 2020 میں وادی میں 7200 کوئنٹل سے زیادہ شہد کی پیداوار درج ہوئی تھی پھر عالمی وبا کورونا وائرس سے صنعت کو نقصان پہنچا لیکن اس سال اس میں بہتری کی اُمید ہے۔