سرینگر:محکمہ ایکسائز جموں و کشمیر پولیس، اینٹی نارکوٹکس ٹاسک فورس اور محکمہ مال کی جانب سے خودرو بھنگ سمیت پوست کی کاشت کے خلاف کارروائیوں کے باوجود منشیات کی کاشت اور منشیات فروشی کا رجحان روز بروز بڑھ رہا ہے۔ وہیں لائن آف کنٹرول کی تار بندی سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب اور جگہ جگہ حفاظتی اہلکاروں کی تعیناتی کے باوجود ایل او سی کے اُس پار سے وادی کشمیر میں کروڑوں روپے مالیت کے منشیات پہنچائی جا رہی ہے، جس وجہ سے گزشتہ چند سالوں میں کشمیر میں منشیات کی اسمگلنگ کی مقدار میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ Drug Trade in Kashmir
کشمیر میں منشیات کے کاروبار میں اضافہ کیوں؟ کشمیر میں منشیات کے استعمال اور کاربار نے اب وبائی شکل اختیار کر لی ہے۔ ہیرؤن کے استعمال اور اسمگلنگ سے جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی کے لیے سنگین اثرات ہیں۔ جموں و کشمیر پولیس کے اشتراک کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر ای ٹی وی بھارت کے ذریعہ مرتب کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیر میں ہیروئن کی سب سے زیادہ مانگ ہے اور اس لیے بھاری مقدار میں یہ ڈرگ برآمد ہو رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سال 2022 کے پہلے 6 مہینوں میں تقربیاً 16.23746 کلو گرام ہیروئن منشیات فروشوں سے برآمد کی گی ہے۔ JK Police On Drug Cases in JK
جنوری کے مہینے میں منشیات فروشوں سے 2.017 کلو گرام ہیروئن، فروری میں 5.805 کلو گرام، مارچ کے مہینے میں اس مقدار میں کمی دیکھی گی اور صرف 82.5 گرام ہی برآمد کی گی۔ وہیں اپریل مہینے میں ابھی تک کی سب سے زیادہ 7.355 کلو گرام ہیروئن برآمد ہوئی ہے اور اس کے بعد 903.96 گرام مئی کے مہینے میں جب کہ جون اور جولائی میں بالترتیب 35 اور 39 گرام ہیروئن منشیات فروشوں سے برآمد کی گی ہے۔Herion Consumption in Kashmir
وہیں جب اس حوالے سے جب ای ٹی وی بھارت نے پولیس کے ایک سینیئر افسر سے رابطہ قیام کیا تو انہوں نے نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ "کئی اقدمات اٹھے گئے ہیں لیکن منشیات کی تسکری پر پوری طرح سے قابو نہیں پایا جا رہا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر کمیرے بھی نصب ہیں اور اہلکار بھی تعینات ہیں لیکن منشیات فروش کسی نہ کسی طرح منشیات لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ کبھی ڈرون کا استعمال کر کے تو کبھی دیگر طریقے اپنا کر۔
انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پولیس اور دیگر متعلقہ محکمے کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ موسم سرما میں شمالی اضلاع کپواڑہ اور بارہمولہ کے راستے منشیات کی تسکری دیکھی گئی ہےاور کئی منشیات فروشوں کو گرفتار کر کے ان پر کارروائی بھی کی گی۔ پولیس افسر نے کہا کہ منشیات کے خلاف جنگ کے لیے پولیس ہمیشہ سماج کے معزز افراد سے تعاون کی گزارش کرتی رہتی ہے۔ ہیروئن اور دیگر منشیات فروشی کو ختم کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
اگرچہ پولیس افسر نے یہ نہیں بتایا کی بھارت میں ہیروئن کی مانگ کہاں سب سے زیادہ ہے اور گرفتار شدہ منشیات فروش سے تحقیقات کے دوران کیا کچھ سامنے آیا، تاہم ان کا مانا ہے کہ یہاں کے سرحدی علاقوں سے منشیات کی تسکری ہوتی ہے، لیکن اگر آپ اعداد و شمار دیکھیں تو یہ تسکری مسلسل نہیں ہے بلکہ اس پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔
اعداد و شمار کی بات کریں تو امسال سب سے زیادہ ہیرؤن (6400 گرام) اپریل مہینے میں وسطی ضلع بڈگام سے برآمد کی گئی اور اس کے بعد جنوبی ضلع پلوامہ سے فروری ماہ میں 5700 گرام کی تسکری شامل تھی۔ اس پس منظر میں بات کرتے ہوئے پولیس افسر کا کہنا تھا کہ برآمد ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ منشیات یہاں سے آئی ہے۔ یہ جانچ کا موضوع ہے کہ وہاں یہ ڈرگ پہنچی کیسے۔ جن افراد سے یہ منشیات برآمد ہوئی تھی ان پر اس وقت قانونی کارروائی چل رہی ہے اور ان کے دے گئے بیانات پر ہی پولیس آئندہ مہینوں میں ان کی خفیہ نیٹ ورک کو برباد کرنے میں کامیاب ہوگی۔ پولیس افسر نے کہا کہ منشیات فروشوں پر پبلک سفیٹی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔
مزید پڑھیں:
اعداد و شمار کو اگر دیکھیں تو صرف ہیروئن کی ہی تسکری نہیں ہو رہی ہے بلکہ دیگر منشیات بھانگ (129785 گرام)، غیر قانونی شراب (133 بوتلیں) ، براؤن شوگر (2508.50 گرام)، نشے کے لیے استعمال کی جانی والی گولیاں (56139) ، کوڈین (2271 بوتلیں)، فکی (1095.80 کلوگرام) اور چرس (72365 گرام) کے علاوہ نقد 7 لاکھ 60 ہزار 260 روپے سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران منشیات فروشوں سے برآمد کیے گئے۔ وہیں پولیس نے کشمیر کے 9 اضلاع سے منشیات فروشی کےالزام میں 359 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ شوپیاں ایک ایسا واحد ضلع ہے جہاں سے کوئی بھی ایسا معاملہ امسال سامنے نہیں آیا۔