جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے سے کشمیری غیر مسلم اقلیتی آبادی میں ایک تناؤ برپا ہوا- عدالت نے وزیر اعظم جاب پیکج کے متعلق اپنا فیصلہ سنایا ہے کہ، اب اس پیکج کے تحت یہاں سرکاری نوکریاں کشمیری مہاجرین پنڈتوں کے لیے مخصوص ہیں۔
جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے فیصلے سے ہندو اور سکھ اقلیتی آبادی مایوس عدالت نے کہا کہ کشمیر میں ہر ہندو کشمیری پنڈت نہیں ہے کیونکہ پنڈتوں کی الگ پہچان ہے۔ اس فیصلے سے دیگر ہندو اور سکھ اقلیتی آبادی مایوس ہے۔
دراصل سنہ 2009 میں کانگریس کی قیادت والی مرکزی حکومت نے کشمیر میں 90 کی دہائی کے نامساعد حالات سے متاثر ہوئے ہندوؤں کے لیے پیکج کا اعلان کیا تھا جس میں چھ ہزار نوکریاں بھی شامل تھیں۔
نوے کی دہائی میں وادی میں نامساعد حالات کے سبب کشمیری پنڈتوں کو یہاں سے نقل مکانی کرنی پڑی تھی جس سے وہ بے حد متاثر ہوئے تھے۔
ان کی باز آبادکاری اور وطن واپسی کے لیے مرکزی حکومت نے مہاجر پنڈتوں کے لیے وزیر اعظم جاب پیکج' کا اعلان کیا تھا۔
اس تعلق سے کشمیری سکھوں کا کہنا ہے کہ وہ بھی ان حالات سے متاثر ہوئے تھے اور ان کو دیہی علاقوں سے شہر یا قصبوں میں پناہ لینی پڑی تھی۔
گزشتہ برس موجودہ مرکزی حکومت نے اس پیکج میں غیر مہاجر پنڈتوں کو بھی شامل کیا تھا، جس سے سکھ و دیگر ہندوؤں میں کافی خوشی تھی۔
اس ضمن میں جگموہن سنگھ رانا، جو وادی میں سکھ اقلیت کے سرکردہ رہنما ہیں انہوں نے بتایا کہ سنہ 2012 میں ان کے مطالبے کے بعد مرکزی حکومت نے سکھوں و دیگر متاثرین کو بھی وزیر اعظم جاب پیکج میں شامل کیا تھا- لیکن پی ڈی پی اور بھاجپا مخلوط حکومت نے اس ہدایت میں ہیرا پھیری کرکے صرف کشمیری پنڈتوں کو پیکج کا مستحق قرار دیا ہے اور دیگر غیر مسلم متاثرین کو اس اسکیم سے خارج کردیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ' وہ ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے پر خاموش نہیں رہیں گے۔