کشمیر میں دستکاری کی صنعت اتنی ہی پرانی ہے جتنی تقریبا یہاں کی اسلامی تاریخ ہے۔ 1372 عیسوی میں جب امیر کبیر میر سید علی ہمدانیؒ ہمدان شہر سے اسلام کی اشاعت کے لیے کشمیر آئے تھے تو انہوں نے نومسلم آبادی کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے دستکاری کی جانب راغب کیا تھا۔ تب سے یہاں پر دستکاری صنعت کی داغ بیل پڑی۔
ایک زمانے میں پرانے شہر کی آبادی کا بیشتر حصہ بالواسطہیا بلاواسطہ طور مختلف دستکاری صنعتوں سے ہی جڑا ہوا تھا لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے یہ دستکاری صنعتیں زوال پذیر ہو رہی ہیں۔ البتہ دیگر دستکاری صنعتوں کے مقابلے ہاتھ سے بنائے جانے والے تانبے کے برتن کی یہ صنعت اگرچہ کسی حد تک محفوظ تھی لیکن مشینوں کے عمل دخل سے اب اس پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ رعناواری علاقے میں کئی یونٹوں میں اب مشینوں کے ذریعے تانبے کے برتن تیار کئے جاتے ہیں جس وجہ سے ہاتھ سے تانبے کے برتن بنانے والے ان کاریگروں کا کام بے حد متاثر ہو رہا ہے۔
جموں و کشمیر میں مشین سے تانبے کے برتن تیار کرنے پر کاپر یوٹنسلز مشین ایکٹ کے تحت مکمل پابندی عائد ہے۔ سال 2006 میں مشین سے تانبے کے برتنوں کی تیاری کو روکنے کے لیے اس وقت کی حکومت نے قانون کو بنایا تھا۔ ابتدا میں خلاف ورزی کے مرتکب افراد پر قانون کے تحت کارروائی بھی عمل میں لائی گئی تھیں لیکن اب دور حاضر میں متعلقہ محکمہ مزکورہ ایکٹ کو جیسے بھول ہی گیا ہے کیونکہ عمل درآمد نہ ہونے کے سبب آئے روز مشین یونٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
کاپر ٹریڈ یونین کے صدر محمد یوسف ککرو کہتے ہیں کہ متعلقہ محکمے اور ضلع انتظامیہ کے اعلی افسران کی توجہ بارہا اس سنگین مسئلے کی طرف مبزول کرانے کے باوجود کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا رہی ہے۔