سرینگر: سرکاری ذرائع کے مطابق جموں و کشمیر میں پانچ سرکاری ملازمین کو عسکریت پسندوں سے روابط، نارکو ٹیرر سنڈیکیٹ چلانے، دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور کالعدم تنظیموں کی مدد کرنے کے شبہ میں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ راج بھون کے ذرائع نے تصدیق کی کہ نوکریوں سے برطرفی کے احکامات آج دن میں جاری کئے جائیں گے۔ حکام نے ابھی تک درجنوں سرکاری ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کیا ہے جبکہ اسی ہفتے پولیس اور چند دیگر محکمہ جات سے وابستہ متعدد ملازمین کو قبل از وقت نوکریوں سے فائر کردیا گیا۔ محکمہ عمومی انتظامیہ یا جی اے ڈی نے اپنے حکمناموں میں لکھا ہے کہ یہ ملازمین اپنی ڈیوٹی کے پابند نہیں تھے اور انتظامیہ کی ایک کمیٹی نے نوکری کے لئے متعین کردہ اصولوں کے تحت فیصلہ کیا کہ انہیں قبل از وقت ریٹائر کردیا جائے۔
حکام نے کئی ڈاکٹروں کو اجازت کے بغیر غیر معینہ عرصے کیلئے ڈیوٹی سے غیر حاضر رہنے کی پاداش میں بھی نوکریوں سے برطرف کیا ہے۔ جن ملازمین کو برطرف کیا گیا ہے ان میں کشمیر یونیورسٹی سے وابستہ کئی پروفیسرز، محکمہ تعلیم سے وابستہ کئی اساتذہ اور دیگر ملازمین بھی شامل ہیں۔ کشمیر میں سیاسی جماعتوں کا الزام ہے کہ ان ملازمین کو ایک بدلے کی کارروائی کے تحت نوکریوں سے برخاست کیا جارہا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ ڈاکتر فاروق عبداللہ نے کہا کہ حکام نے 50 ہزار نوکریان فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اسے پورا نہیں کیا گیا۔
اطلاع کے مطابق انٹیلیجنس ایجنسیوں کی تحقیقات اور جانچ پڑتال کے بعد 5 سرکاری ملازمین کو باہر کا دروازہ دکھایا گیا ہے جو کہ بلاواسطہ یا بلاواسطہ طور عسکریت پسند سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ برطرف کئے گئے ملازمین میں پولیس کانسٹیبل تنویر سلیم ڈار بھی شامل ہیں جس کی تعیناتی سال 1991 میں ہوئی تھی۔ تنویر سلیم کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ مذکورہ پولیس کانسٹیبل لشکر طیبہ سے روابط تھا۔ جبکہ عسکریت پسندوں کے کئی حملوں میں بھی ملوث تھا اور ایم ایل سی جاوید شالہ کے قتل میں بھی تنویر سلیم ڈار کا کلیدی رول رہا ہے۔