اردو

urdu

ETV Bharat / city

NC Objections in Delimitation Draft : نئے بھارت میں حقائق اور ڈیٹا کو تسلیم نہیں کیا جاتا ہے

جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے ترجمان عمران نبی ڈار Imran Nabi Dar on Delimitation Draft کا کہنا ہے کہ حد بندی کمیشن نے جموں و کشمیر میں نئی اسمبلی سیٹوں کے قیام کے لیے متزاد معیار اپنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے بھارت میں حقائق اور فیگرس کو تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔

NC Objections in Delimitation Draft
نئے بھارت میں حقائق اور ڈیٹا کو تسلیم نہیں کیا جاتا ہے

By

Published : Feb 15, 2022, 10:33 PM IST

جموں و کشمیر میں سات نئے اسمبلی حلقوں کے قیام کے لیے حدبندی کمیشن نے نئی نشستوں کے متعلق ایسوسی ایٹ ممبران نے حد بندی کمیشن کے سامنے اپنے اعتراضات اور شکایات درج کیے ہیں۔

جموں و کشمیر کے بیشتر سیاسی جماعتوں نے حالیہ حد بندی کمیشن کے مسودہ رپورٹ کو مسترد JK Parties Reject Delimitation Commission Draft کیا ہے۔سیاسی پارٹوں کا الزام ہے کہ حد بندی کمیشن نے جموں و کشمیر میں آئین کے تحت کام نہیں کہا بلکہ بی جے پی کے فائدے کے لیے کام کیا ہے۔


نیشنل کانفرنس کے ایسویس ایٹ ممبر ریٹائر جسٹس حسنین مسعودے Hasnain Masoodi on Delimitation Draft نے گزشتہ روز حد بندی کمیشن کے سامنے اپنے اعتراضات اور شکایتیں درج کیے ہیں۔


ای ٹی وی بھارت کے نمائندے میر فرحت نے نیشنل کانفرنس کے ترجمان عمران نبی ڈار سے گزشتہ روز این سی کی جانب سے رپورٹ جمع کرنے کے بارے میں تفصیلات جاننے کی کوشش کی ہے۔

نئے بھارت میں حقائق اور ڈیٹا کو تسلیم نہیں کیا جاتا ہے

عمران نبی ڈار نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے کمیشن کے متعلق اپنا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر تنظیم نو قانون 2019 سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے جس سے حدبندی کمیشن عمل غیر آئینی J&K Reorganization Act 2019 ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کمیشن نے آبادی کے اعتبار کے مطابق بھی سیٹوں کو قائم کرنے میں متزاد معیار اپنایا ہے۔ عمران نبی ڈار کا کہنا ہے کہ جموں میں 50 سے 70 ہزار افراد پر مشتمل پڈر، ماتا وشنو دیوی، بنی نشستیں قائم کرنے کا مسودہ پیش کیا ہے جبکہ وادی میں 1.50 لاکھ سے زیادہ آبادی ڈورو کی ایک سیٹ مشتمل ہے، جو کمیشن کا دہرا اور مشکوک معیار ظاہر کرتا ہے۔



نیشنل کانفرنس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حقائق اور ڈاٹا کے مطابق کشمیر میں زیادہ سیٹوں کا قیام ممکن تھا لیکن کمیشن نے اس کے برعکس جموں صوبے میں چھ سیٹوں کا اضافہ کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ستم طریفی یہ ہے کہ ملک میں آج حقائق کو تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔

ہم آپ کو بتادیں کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر کا نظام جموں و کشمیر تنظیم نو قانون 2019 کے تحت چلایا جارہا ہے۔


اگرچہ سنہ 2002 میں فاروق عبداللہ کی حکومت نے حد بندی کو سنہ 2026 تک پابندی کردی تھی تاہم تنظیم نو قانون کے اطلاق کے بعد مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر میں نئی اسمبلی حلقوں کے قیام کے لیے حد بندی کمیشن تشکیل دے کر یونین ٹریٹری میں مزید سات سیٹوں کا اضافہ کرنے کا حکم جاری کیا۔

سابق ریاست جموں و کشمیر میں اسمبلی حلقوں کی تعداد 111 تھی جن میں 87 پر ہی انتخابات منعقد ہوتے تھے کیونکہ 24 سیٹوں کو پاکستان زیر قبضے کشمیر کی آبادی کے لیے مختص رکھی گئی تھی۔

جموں و کشمیر میں سنہ 1994 میں آخری حد بندی ہوئی تھی جس میں اسمبلی حلقوں کی تعداد 76 سے 87 بڑھا دی گئی۔

اس حد بندی میں جموں صوبے میں پانچ سیٹوں کا اضافہ ہوا جس سے اس صوبے میں حلقوں کا تعداد 32 سے بڑھ کر 37 ہوا، جبکہ وادی میں چار سیٹوں کے اضافے سے سیٹوں کی تعداد 42 سے 46 ہوا۔

حالیہ ہونے والے حد بندی میں سات مزید سیٹوں کے قیام کرنے کا منصوبہ ہے جس سے جموں وکشمیر میں سیٹوں کی کل تعداد 90 تک پہنچ جائے گی۔

سابق جسٹس رنجن دیسائی کی سربراہی میں کمیشن نے ابھی تک دو میٹنگ منعقد کی ہے جس میں بی جے پی کے تین پارلیمان ممبران نے شرکت کی جب کہ نیشنل کانفرنس کے تین ممبران نے اس کا بائیکاٹ کیا تھا تاہم دوسری میٹنگ میں نیشنل کانفرنس نے شرکت کی۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details