گزشتہ روز مرکز کی جانب سے قائم کردہ کمیشن نے جموں و کشمیر میں اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کی حدبندی کے لیے اپنی حتمی رپورٹ پیش کی۔ بی جے پی کو چھوڑ کر تمام سیاسی جماعتوں نے نئی تبدیلیوں کی مخالفت کی ہے۔ جموں و کشمیر کے لیے حدبندی کمیشن کے قیام کا مقصدخطہ میں اسمبلی کی 90 نشستوں کو دوبارہ ترتیب دینا تھا۔ حدبندی کے عمل کی تکمیل سے جموں و کشمیر،جو جون 2018 سے منتخب حکومت کے بغیر ہے،اسمبلی انتخابات کے انعقاد کے لئے یہاں رہ ہموار ہوگی۔What changes to J&K constituencies mean
آئیے جانتے ہے کہ حد بندی کا کیا مطلب ہے،اورا سے لے کر کمیشن نے کیا تجویز پیش کی ہے، اور اس کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے۔
حدبندی کی ضرورت اس وقت پڑی جب جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 نے اسمبلی کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔ سابقہ ریاست جموں و کشمیر کی 111 نشستیں تھیں - کشمیر میں 46، جموں میں 37، اور لداخ میں چار، اس کے علاوہ 24 نشستیں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے لیے مخصوص تھیں۔ جب لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا گیا تو جموں و کشمیر کے پاس 107 نشستیں رہ گئی تھیں، جن میں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے لیے 24 نشستیں بھی شامل تھیں۔ تنظیم نو کے قانون نے جموں و کشمیر کے لیے 114 - 90 سیٹیں بڑھا دی ہیں، اس کے علاوہ 24 پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے لیے مخصوص ہیں۔
سابقہ ریاست میں، پارلیمانی حلقوں کی حدبندی بھارت کے آئین کے تحت کی جاتی تھی اور اسمبلی سیٹوں کی حدبندی اس وقت کی ریاستی حکومت نے جموں و کشمیر ریپسنٹیشن اف دی پیپلس ایکٹ 1957 کے تحت کی تھی۔ سنہ 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد اسمبلی اور پارلیمانی دونوں نشستوں کی حدبندی بھارت کے آئین کے تحت ہوتی ہے۔
حدبندی کمیشن 6 مارچ 2020 کو قائم کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس رنجنا پرکاش دیسائی کی سربراہی کے علاوہ اس کمیٹی میں چیف الیکشن کمشنر اور جموں و کشمیر کے چیف الیکٹورل آفیسر بطور ممبر، اور جموں و کشمیر کے پانچ ارکان پارلیمنٹ بطور ایسوسی ایٹ ممبر تھے۔
پینل کو دیا گیا وقت شروع میں ایک سال تھا، تاہم متعدد دفعہ اس میں توسیع کی گئی، کیونکہ نیشنل کانفرنس کے تین ممبران پارلیمنٹ نے ابتدا میں اس کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا۔ 20 جنوری کو پہلے مسودہ کی سفارشات میں جموں کے لئے چھ اور کشمیر کے لئے ایک اسمبلی سیٹ کے اضافے کی تجویز دی گئی تھی۔ 6 فروری کو اس نے اپنی دوسری مسودہ رپورٹ پیش کی،اب سب کی نظریں اسمبلی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن اور مرکزی حکومت پر ہونگی۔
دلچسپ بات ہے کہ حدبندی صرف جموں و کشمیر میں دوبارہ تیار کی جا رہی ہیں، جب ملک کے باقی حصوں میں اس عمل پر 2026 تک منجمد کر دی گئی تھی۔ جموں و کشمیر میں حدبندی کی آخری مشق 1995 میں کی گئی تھی۔ سنہ 2002 میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی قیادت میں اس وقت کی جموں و کشمیر حکومت نے جموں و کشمیر ریپسنٹیشن اف دی پیپلس ایکٹ میں ترمیم کی۔ ملک کے باقی حصوں کی طرح 2026 تک حدبندی کی مشق کو منجمد کرنے کے فیصلے کو پہلے جموں و کشمیر ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا، تاہم دونوں نے منجمد کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
ایک بار پھر جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتیں اس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ حدبندی کمیشن کو تنظیم نو کے قانون کے ذریعے لازمی قرار دیا گیا ہے، جو کہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ جہاں ایک اصول کے طور پر حدبندی مردم شماری کی بنیاد پر کی جاتی ہے، وہیں کمیشن کا دعوی ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے لیے کچھ دیگر عوامل کو بھی مدنظر رکھے گا۔
اب کیا بدلہ ہے ؟
ا) کمیشن نے اسمبلی کی سات نشستوں میں اضافہ کیا ہے – چھ جموں میں (اب 43 نشستیں) اور ایک کشمیر میں (اب 47)۔ اس نے موجودہ اسمبلی سیٹوں کے ڈھانچے میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں۔
ب) کمیشن نے اننت ناگ اور جموں کی سیٹوں کی حدود کو دوبارہ تیار کیا ہے۔ جموں کا پیر پنجال خطہ، جو پونچھ اور راجوری اضلاع پر مشتمل تھا ،اور پہلے جموں کی پارلیمانی نشست کا حصہ تھا، اب کشمیر کی اننت ناگ سیٹ میں شامل کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سرینگر پارلیمانی حلقہ کے شیعہ اکثریتی علاقے کو بھی وادی میں بارہمولہ کے حلقے میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
پ) کمیشن نے سفارش کی ہے کہ "قانون ساز اسمبلی میں کشمیری مہاجرین (کشمیری پنڈتوں) کی کمیونٹی سے کم از کم دو ارکان کی لئے جائینگے۔ کمیشن نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ مرکز کو جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے بے گھر افراد کو نمائندگی دینے پر غور کرنا چاہیے، جو تقسیم کے بعد جموں ہجرت کر گئے تھے۔
اسمبلی سیٹوں میں تبدیلی کا مطلب؟
حدبندی کی بنیاد 2011 کی مردم شماری کے بنا پر ہے، تبدیلیوں کا مطلب ہے کہ44 فیصد آبادی (جموں) 48 فیصد سیٹوں پر ووٹ ڈالے گی، جب کہ کشمیر میں رہنے والے 56 فیصد باقی 52 فیصد سیٹوں پر ووٹ دیں گے۔ پہلے کشمیر کے 56 فیصد کے پاس 55.4 فیصد سیٹیں تھیں اور جموں کے 43.8 فیصد کے پاس 44.5 فیصد سیٹیں تھیں۔
جموں کی چھ نئی نشستوں میں سے چار میں ہندو اکثریتی آبادی ہے۔ خطہ چناب کی دو نئی نشستوں میں سے ڈوڈہ اور کشتواڑ اضلاع پر مشتمل پیڈر سیٹ پر مسلمان اقلیت میں ہیں۔ کشمیر میں ایک نئی نشست کپواڑہ میں ہے، جو پیپلز کانفرنس کا گڑھ ہے جسے بی جے پی کے قریب دیکھا جاتا ہے۔