اردو

urdu

ETV Bharat / city

J&K Delimitation: جموں و کشمیر میں عوامی رائے کے برخلاف حدبندی کی گئی، سیاسی رہنماؤں کا بیان

جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 کے تحت اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا گیا۔ سابقہ ریاست جموں و کشمیر میں 111 نشستیں تھیں، کشمیر میں 46، جموں میں 37، اور لداخ میں چار، اس کے علاوہ 24 نشستیں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے لیے مخصوص تھیں۔What changes to J&K constituencies mean

حدبندی
حدبندی

By

Published : May 6, 2022, 1:06 PM IST

گزشتہ روز مرکز کی جانب سے قائم کردہ کمیشن نے جموں و کشمیر میں اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کی حدبندی کے لیے اپنی حتمی رپورٹ پیش کی۔ بی جے پی کو چھوڑ کر تمام سیاسی جماعتوں نے نئی تبدیلیوں کی مخالفت کی ہے۔ جموں و کشمیر کے لیے حدبندی کمیشن کے قیام کا مقصدخطہ میں اسمبلی کی 90 نشستوں کو دوبارہ ترتیب دینا تھا۔ حدبندی کے عمل کی تکمیل سے جموں و کشمیر،جو جون 2018 سے منتخب حکومت کے بغیر ہے،اسمبلی انتخابات کے انعقاد کے لئے یہاں رہ ہموار ہوگی۔What changes to J&K constituencies mean

آئیے جانتے ہے کہ حد بندی کا کیا مطلب ہے،اورا سے لے کر کمیشن نے کیا تجویز پیش کی ہے، اور اس کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے۔

حدبندی کی ضرورت اس وقت پڑی جب جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 نے اسمبلی کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔ سابقہ ریاست جموں و کشمیر کی 111 نشستیں تھیں - کشمیر میں 46، جموں میں 37، اور لداخ میں چار، اس کے علاوہ 24 نشستیں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے لیے مخصوص تھیں۔ جب لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا گیا تو جموں و کشمیر کے پاس 107 نشستیں رہ گئی تھیں، جن میں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے لیے 24 نشستیں بھی شامل تھیں۔ تنظیم نو کے قانون نے جموں و کشمیر کے لیے 114 - 90 سیٹیں بڑھا دی ہیں، اس کے علاوہ 24 پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے لیے مخصوص ہیں۔

سابقہ ریاست میں، پارلیمانی حلقوں کی حدبندی بھارت کے آئین کے تحت کی جاتی تھی اور اسمبلی سیٹوں کی حدبندی اس وقت کی ریاستی حکومت نے جموں و کشمیر ریپسنٹیشن اف دی پیپلس ایکٹ 1957 کے تحت کی تھی۔ سنہ 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد اسمبلی اور پارلیمانی دونوں نشستوں کی حدبندی بھارت کے آئین کے تحت ہوتی ہے۔

حدبندی کمیشن 6 مارچ 2020 کو قائم کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس رنجنا پرکاش دیسائی کی سربراہی کے علاوہ اس کمیٹی میں چیف الیکشن کمشنر اور جموں و کشمیر کے چیف الیکٹورل آفیسر بطور ممبر، اور جموں و کشمیر کے پانچ ارکان پارلیمنٹ بطور ایسوسی ایٹ ممبر تھے۔

پینل کو دیا گیا وقت شروع میں ایک سال تھا، تاہم متعدد دفعہ اس میں توسیع کی گئی، کیونکہ نیشنل کانفرنس کے تین ممبران پارلیمنٹ نے ابتدا میں اس کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا۔ 20 جنوری کو پہلے مسودہ کی سفارشات میں جموں کے لئے چھ اور کشمیر کے لئے ایک اسمبلی سیٹ کے اضافے کی تجویز دی گئی تھی۔ 6 فروری کو اس نے اپنی دوسری مسودہ رپورٹ پیش کی،اب سب کی نظریں اسمبلی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن اور مرکزی حکومت پر ہونگی۔


دلچسپ بات ہے کہ حدبندی صرف جموں و کشمیر میں دوبارہ تیار کی جا رہی ہیں، جب ملک کے باقی حصوں میں اس عمل پر 2026 تک منجمد کر دی گئی تھی۔ جموں و کشمیر میں حدبندی کی آخری مشق 1995 میں کی گئی تھی۔ سنہ 2002 میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی قیادت میں اس وقت کی جموں و کشمیر حکومت نے جموں و کشمیر ریپسنٹیشن اف دی پیپلس ایکٹ میں ترمیم کی۔ ملک کے باقی حصوں کی طرح 2026 تک حدبندی کی مشق کو منجمد کرنے کے فیصلے کو پہلے جموں و کشمیر ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا، تاہم دونوں نے منجمد کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

ایک بار پھر جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتیں اس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ حدبندی کمیشن کو تنظیم نو کے قانون کے ذریعے لازمی قرار دیا گیا ہے، جو کہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ جہاں ایک اصول کے طور پر حدبندی مردم شماری کی بنیاد پر کی جاتی ہے، وہیں کمیشن کا دعوی ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے لیے کچھ دیگر عوامل کو بھی مدنظر رکھے گا۔

اب کیا بدلہ ہے ؟
ا) کمیشن نے اسمبلی کی سات نشستوں میں اضافہ کیا ہے – چھ جموں میں (اب 43 نشستیں) اور ایک کشمیر میں (اب 47)۔ اس نے موجودہ اسمبلی سیٹوں کے ڈھانچے میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں۔
ب) کمیشن نے اننت ناگ اور جموں کی سیٹوں کی حدود کو دوبارہ تیار کیا ہے۔ جموں کا پیر پنجال خطہ، جو پونچھ اور راجوری اضلاع پر مشتمل تھا ،اور پہلے جموں کی پارلیمانی نشست کا حصہ تھا، اب کشمیر کی اننت ناگ سیٹ میں شامل کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سرینگر پارلیمانی حلقہ کے شیعہ اکثریتی علاقے کو بھی وادی میں بارہمولہ کے حلقے میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
پ) کمیشن نے سفارش کی ہے کہ "قانون ساز اسمبلی میں کشمیری مہاجرین (کشمیری پنڈتوں) کی کمیونٹی سے کم از کم دو ارکان کی لئے جائینگے۔ کمیشن نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ مرکز کو جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے بے گھر افراد کو نمائندگی دینے پر غور کرنا چاہیے، جو تقسیم کے بعد جموں ہجرت کر گئے تھے۔

اسمبلی سیٹوں میں تبدیلی کا مطلب؟
حدبندی کی بنیاد 2011 کی مردم شماری کے بنا پر ہے، تبدیلیوں کا مطلب ہے کہ44 فیصد آبادی (جموں) 48 فیصد سیٹوں پر ووٹ ڈالے گی، جب کہ کشمیر میں رہنے والے 56 فیصد باقی 52 فیصد سیٹوں پر ووٹ دیں گے۔ پہلے کشمیر کے 56 فیصد کے پاس 55.4 فیصد سیٹیں تھیں اور جموں کے 43.8 فیصد کے پاس 44.5 فیصد سیٹیں تھیں۔
جموں کی چھ نئی نشستوں میں سے چار میں ہندو اکثریتی آبادی ہے۔ خطہ چناب کی دو نئی نشستوں میں سے ڈوڈہ اور کشتواڑ اضلاع پر مشتمل پیڈر سیٹ پر مسلمان اقلیت میں ہیں۔ کشمیر میں ایک نئی نشست کپواڑہ میں ہے، جو پیپلز کانفرنس کا گڑھ ہے جسے بی جے پی کے قریب دیکھا جاتا ہے۔


کشمیری پنڈتوں اورپاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے بے گھر ہونے والے افراد کے لیے سیٹوں کے ریزرویشن سے بھی بی جے پی کو مدد ملے گی۔ کمیشن نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا موجودہ نشستوں میں سے کشمیری پنڈتوں کے لیے نشستیں مخصوص کی جانی چاہئیں، یا انہیں اضافی نشستیں دی جانی چاہئیں۔

پارلیمانی نشستوں میں تبدیلی کا مطلب؟
اننت ناگ اور جموں کی تنظیم نو سے ان سیٹوں پر مختلف آبادیاتی گروپوں کے اثر و رسوخ میں تبدیلی آئے گی۔ کمیشن نے درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کے لیے اسمبلی کی نو نشستیں محفوظ کی ہیں۔ ان میں سے چھ اننت ناگ پارلیمانی سیٹ پر ہیں، بشمول پونچھ اور راجوری، جہاں ایس ٹی کی سب سے زیادہ آبادی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کا اندازہ ہے کہ پارلیمانی سیٹ بھی ایس ٹی کے لیے مخصوص ہوگی۔ سابقہ اننت ناگ سیٹ پر ایس ٹی کی آبادی کم تھی، وادی کی سیاسی جماعتیں اسے نسلی کشمیری بولنے والے مسلم ووٹروں کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے طور پر دیکھتی ہیں۔


دوسری طرف اگر پونچھ اور راجوری جموں لوک سبھا سیٹ پر نظر ڈالتے ہیں تو اسے ایس ٹی کے لیے مخصوص لوک سبھا سیٹ قرار دینے کی ضرورت پڑ سکتی تھی۔ راجوری اور پونچھ کو منتقل کرنے سے بی جے پی کو یہاں ہندو ووٹ کو مضبوط کرنے میں ممکنہ طور پر مدد مل سکتی ہے۔

اپوزیشن جماعتیں کیا کہتی ہیں؟
کشمیری سیاستدانوں نے کمشن کی رپورٹ کو عوام کے ساتھ زیادتی قرار دیا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے سینیئر لیڈر محمد یوسف تریگامی نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "کمشن کی سفارشات میں نیا کچھ نہیں ہے۔ 84 ویں آئینی ترمیم نے اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کی حدبندی مشق پر 2026 تک روک لگا کے رکھی تھی کیونکہ پہلے مردم شماری ہونی چاہیے پھر حدبندی۔ دلچسپ بات ہے اس رپورٹ کو تیار کرتے وقت 2002 ایکٹ پر بھی عمل نہیں کیا گیا ہے۔ "

اُن کا کہنا تھا کہ اس مشق کو جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ کے تحت یہاں کے باشندگان پر مسلط کیا گیا ہے۔
"ہم سے کبھی مشورہ نہیں کیا گیا اور ہماری غیر موجودگی میں لیا گیا کوئی بھی فیصلہ درست فیصلہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہمیں کبھی قابل قبول ہو سکتا ہے۔ ہماری خصوصی حیثیت اور ریاست کا درجہ ختم کر دیا گیا۔ ہم نے اس ایکٹ کو عدالت میں چیلنج کیا ہے۔ آج تک کوئی سماعت نہیں ہوئی جو کہ افسوسناک ہے۔"

وہیں نیشنل کانفرنس کے ترجمان عمران نبی ڈار کا کہنا تھا کہ "جیسے اُمید تھی ویسا ہی ہوا۔ پراکسیوں کو فائدہ پہنچایا گیا ہے اور ان کے خدشات کو دور کیا گیا۔ ہمارے خدشات کو دور نہیں کیا گیا اور یہ محض سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے رد و بدل ہے۔

انہوں نے مزیدکہا کہ "جب بھی اسمبلی انتخابات ہوں گے ووٹرز بی جے پی اور اس کی پراکسیوں کو فیصلہ کن جواب دیں گے۔"
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر رؤف بٹ کا کہنا تھا کہ "وہ (کمشن) لوگوں کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ یہ بی جے پی کو جیتنے میں مدد دینے کی کوشش ہے۔ انہوں نے اداروں کو تباہ کیا ہے۔ یہ ایک یلغار ہے۔ انہوں نے اس عمل کے اصولوں پر عمل نہیں کیا ہے۔"
مزید پڑھیں:Delimitation Commission Signs Final Report: حد بندی کمشن کی رپورٹ فائنل، جموں کو چھ اور کشمیر کو فقط ایک اسمبلی سیٹ ملی


اُنہوں نے کہا کہ کمیشن نے قانون اور آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ بی جے پی طاقت سے حکومت کرنا چاہتی ہے۔ اعتماد کی کمی ہے اور یہ رپورٹیں لوگوں کو مزید ناراض کر دیں گی۔ کچھ لوگ جو اس مشق پر یقین رکھتے تھے وہ بھی مایوس ہیں اور یہ کسی بھی ملک کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اس رپورٹ میں آئینی اصولوں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا اور یہ بھارت کے وفاق کو کمزور کرنے کا ایک قدم ہے۔ ہم اس رپورٹ کی مذمت کرتے ہیں اور یہ بی جے پی کی تین رکنی ٹیم نے کی ہے نہ کہ کسی آزاد کمیشن نے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details