دستکاری کشمیر کی تہذیب و ثقافت کا ایک حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم حکومت کی غیر سنجیدگی اور نئی نسل کی عدم دلچسپی کے سبب یہ صنعت دم توڑ رہی ہے۔
وادی کشمیر میں روزگار کے وسائل کے حوالے سے اگر بات کریں تو ماضی میں یہاں سرکاری نوکری روزگار کا بنیادی وسیلہ نہیں تھی بلکہ لوگوں کی اکثریت زراعت، باغبانی یا دستکاری صنعت سے وابستہ تھی۔ تاہم ترقی کی رفتار نے کشمیر میں روزگار کانقشہ ہی بدل دیا۔ لوگوں نے اچانک سرکاری نوکریوں کو نہ صرف اپنے اور اپنی اولاد کیلئے واحد منزل قرار دینا شروع کردیا بلکہ اپنی صدیوں پرانی روایات بالخصوص دستکاری شعبے کو یکسر نظرانداز کیا جانے لگا۔
دستکاروں کو کشمیر کی معیشت کا ایک بڑا سیکٹر تصور کیا جاتا تھا۔ حالانکہ اس شعبہ کی بدولت آج بھی آبادی کا ایک بڑا حصہ روزگار حاصل کررہا ہے۔ قالین بافی، نمدے یا گبہ سازی کا کام، شال بافی وغیرہ قدیم صنعتوں میں شامل ہیں۔ یہ دستکاری ہماری تہذیب اور ثقافت کا ایک حصہ ہیں لیکن افسوس ہے کہ ان دستکاروں کو سرکاری طور پر بھی سر پرستی نہیں کی گئی۔
وہیں خود صدیوں سے اس صنعت سے وابستہ افراد نے بھی اس کو نہ صرف پس پشت ڈال دیا بلکہ اس کے ساتھ وابستگی کو اپنی توہین سمجھ لیا ہے جس کی وجہ سے آج یہ صنعت زوال پذیر ہے۔
موجودہ وقت میں جو کاریگر دستکاری سے وابستہ ہیں، اْن میں سے بیشتر اس لیے اپنی وابستگی برقرار رکھے ہوئے ہیں کیونکہ انہیں یہ ہنر اپنے آبا و اجداد سے وراثت میں ملا ہے۔
لیکن اگر آج بھی اس صنعت کو تقویت دینے کی کوشش کی جائے گی تو نہ صرف بے روزگاری کی بڑھتی شرح کو کم کیا جا سکتا ہے بلکہ بے روزگار لوگوں کی ایک کثیر تعداد کے لیے آمدنی کا بہتر ذریعہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
انتظامیہ نے دستکاری صنعت کو ترقی بخشنے کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اقدامات اٹھائے ہیں اور رانی پورہ اننت ناگ میں اس صنعت سے وابستہ لوگوں کے لیے ایک کامن فیسلٹی سینٹر کا قیام عمل میں لایا ہے۔