اردو

urdu

By

Published : Jun 9, 2022, 4:27 PM IST

ETV Bharat / city

کشمیری جرنلسٹ شاہد تانترے کو ہراساں کرنے پر ایمنسٹی کا ردعمل

بین الاقوامی انسانی حقوق ادارے نے کہا ہے کہ کشمیر میں 2020 میں متعارف کی گئی میڈیا پالیسی کے تحت صحافیوں پر قدغنیں عائد کی جارہی ہیں۔ Amnesty India Reacts Shahid Tantray Case

کشمیری جرنلسٹ شاہد تانترے
کشمیری جرنلسٹ شاہد تانترے

نئی دہلی:انسانی حقوق کیلئے سرگرم عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کشمیر وادی سے تعلق رکھنے والے صحافی شاہد تانترے کو حکام کی جانب سے ہراساں کئے جانے کے عمل پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت ہند کو مشورہ دیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں اختلاف رائے کو دبانے کا سلسلہ فوری طور پر بند کرے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے ایک ٹویٹر بیان میں کہا کہ شاہد تانترے اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ حکام خطے میں تمام آزاد آوازوں کو کچلنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔

شاہد تانترے دہلی سے شائع ہونے والے مؤقر ماہنامہ 'دی کاروان' کے نامہ نگار ہیں۔ انہوں نے پولیس پر الزام عائد کیا ہے کہ انہیں اور ان کے اہل خانہ کو مقامی پولیس تنگ کررہی ہے اور کئی بار انہیں اور ان کے والد کو پولیس تھانے میں حاضری دینے کیلئے بلایا گیا ہے۔ ان کے ادارے نے اس سلسلے میں ایک تفصیلی نوٹ پولیس کے اعلیٰ حکام کے نام لکھا جسے میگزین کے ٹویٹر ہینڈل پر بھی شائع کیا گیا۔ Police Harassment of Kashmiri Journalist Shahid Tantray

بشکریہ ٹویٹر

اس نوٹ کے ردعمل میں سرینگر پولیس نے دعویٰ کیا کہ شاہد تانترے کے خلاف بعض سرکردہ شخصیات نے شکایت درج کی ہے کہ ان کا نام دی وائر کے ایک مضمون میں شامل کیا گیا ہے جس سے ان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوئے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تانترے نے اس شکایت کے سلسلے میں پولیس کے ساتھ تعاون نہیں کیا ہے۔ پولیس کے مطابق ماضی میں کشمیر فائٹ نامی بلاگ میں بھی اسی طرح صحافی شجاعت بخاری سمیت کئی شخصیات کے بارے میں رائے زنی کی گئی جس سے ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوا۔ شجاعت بخاری کو مبینہ عسکریت پسندوں نے ان کے دفتر کے باہر سکیورٹی اہلکاروں سمیت ہلاک کردیا تھا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بیان کے مطابق شاہد تانترے کے خلاف پولیس کارروائی اس مہم کا حصہ ہے جس کے تحت حکام نے جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد جون 2020 میں متعارف کی گئی میڈیا پالیسی کو عملا جارہا ہے جس کا مقصد جموں و کشمیر میں حکومت کے کام کاج سے متعلق بیانیہ کو اہمیت دی جاتی ہے۔ بیان کے مطابق اگست 2019 کے بعد سے، جموں و کشمیر میں کم از کم 35 صحافیوں کو پولیس پوچھ گچھ، چھاپوں، دھمکیوں، جسمانی حملوں، نقل و حرکت کی آزادی پر پابندیوں یا رپورٹنگ کے لیے حکام کی جانب سے من گھڑت مجرمانہ مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

بشکریہ ٹویٹر

ایمنسٹی کے مطابق جموں و کشمیر اور بھارت کے دیگر علاقوں میں میڈیا کی آزادی کی بگڑتی ہوئی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آزادیٔ رائے کے بین الاقوامی انڈیکس میں بھارت کا مقام آٹھ پائیدان نیچے گرکر 180 ممالک میں 150 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ یہ درجہ بندی ایک بین الاقوامی این جی او رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز یا آر ایس ایف کی 2022 کے پریس فریڈم انڈیکس میں سامنے آئی ہے۔ Press Freedom Index

ABOUT THE AUTHOR

...view details