اردو

urdu

ETV Bharat / city

'میرے شوہر کو جلد سے جلد رہا کیا جائے'

جموں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر کے بٹہ مالو علاقے کی رہنے والی 25 سالہ صباح رحمان کے شوہر عرفان احمد میر گذشتہ تین برسوں سے ادھمپور کی ایک جیل میں قید ہیں۔ صباح کی ایک بچی بھی ہے، جس کی پیدائش کے ایک ماہ بعد میر کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔صباح نے حال ہی میں سرینگر کی پریس کالونی میں اپنے شوہر کی رہائی کے لیے احتجاج کیا تھا۔اس سے قبل گذشتہ ماہ صباح نے بڈشاہ برج پر دریاء جہلم میں خودکشی کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔

میرے شوہر کو جلد سے جلد رہا  کرے
میرے شوہر کو جلد سے جلد رہا کرے

By

Published : Jul 12, 2021, 9:59 PM IST

ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے صباح نے اپنی مشکلات کا تذکرہ کیا اور حکومت سے شوہر کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

صباح کا کہنا ہے کہ ان کا نکاح آج سے تقریبا پانچ برس قبل جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کے ترال علاقہ کے رہنے والے عرفان احمد میر سے ہوا تھا۔ عرفان احمد پیشے سے ٹرک ڈرائیور تھے اور اکثر کام کے سلسلے میں گھر سے باہر جاتے رہتے تھے۔

صباح کا الزام ہے کہ ان کی ساس ان کے ساتھ مسلسل زیادتی کیا کرتی تھی۔ حالات کے پیش نظر صباح اور اس کے شوہر نے اپنا چولہا الگ کرنے کافیصلہ کیا۔ صباح کے مطابق اس فیصلے کے بعد ان کی ساس نے انہیں گھر سے نکال دیا۔

اس بعد میاں بیوی نے مائکے والوں کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔

صبا کا کہنا ہے کہ اسی دوران ان کے پاس ایک کال آتا ہے کہ " ان کے شوہر کو گرفتار کرلیا گیا ہے کیونکہ ان کی گاڑی سے کچھ غیر قانونی سامان برآمد کیا گیا ہے"۔

صباح کے مطابق انہیں معلوم نہیں ہے کہ وہ سامان کیا تھا اور نہ ہی اس حوالے سے کسی نے کوئی وضاحت کی ہے۔

31 مئی کو صباح نے بڈشاہ برج پر دریاء جہلم میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرنے کی کوشش کی تاہم وہاں موجود سکیورٹی اہلکاروں نے انہیں بچا لیا۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے صبا کا کہنا ہے کہ " مجھے کوئی اور راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ میں اپنے شوہر کا حال چال پوچھنے ادھمپور تک کا سفر کر سکوں"۔

انہوں نے کہا کہ بیٹی کے اخراجات اور اپنے اخراجات کیسے پورے کروں ،کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، پھر خودکشی کرنے کی کوشش کی، لیکن وہاں موجود سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے مجھے روک دیا۔ اس کے بعد میں نے پریس کالونی میں جاکر انتظامیہ سے اپنے شوہر کی رہائی کے لیے آواز بلند کی۔

انہوں نے کہا کہ مالی تنگی کے پیش نظر عوام سے بھی امداد کی پیش کش کی۔

'میرے شوہر کو جلد سے جلد رہا کرے'

ان کا کہنا ہے کہ " اگرچہ اس وقت میرا خرچہ میرا بھائی برداشت کرتا ہے تاہم یہ ہم سب کے گذربسر کے لیے کافی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار میری بیٹی بیمار ہو گئی تھی اور اس کے علاج کے لئے میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ میں نے برقع پہن کر سرینگر کے درگاہوں اور زیارت گاہوں پر جا کر بھیک مانگی، جس کے بعد بیٹی کا علاج ممکن ہو پایا۔

یہ بھی پڑھیں:

شوہر سے کبھی فون پر یا خطوط کے ذریعے بات ہوئی؟

اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ " دو بار بات ہوئی ہے۔ پہلی بار جب مجھے اطلاع دی گئی کی میرے شوہر کو گرفتار کر لیا گیا ہےاور دوسری بار اس وقت ان کے شوہر کی طبیعت بہت خراب تھی۔ میرے شوہر دل کے مریض ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی ان کی بیٹی اپنے مامازاد بھائی بہنوں کو اپنے والدین کے ساتھ دیکھتی ہے تم مجھ سے سوال کرتی ہے کہ میرے والد کہاں ہیں؟"

انہوں نے کہا کہ میری گزارش ہے انتظامیہ سے گزارش ہے کہ وہ میرے شوہر کو جلد سے جلد رہا کرے۔ مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔

وہیں مذکورہ لڑکی کے سسرال والوں نے دعویٰ کیا ہے کہ سسرال والوں کی طرف سے اس لڑکی کو کھبی نہیں ستایا گیا ہے اور وہ آج بھی اس لڑکی کو اپنے گھر میں پناہ دینے کے لیے تیار ہیں۔

لڑکی کے دیور وسیم نے ای ٹی وی بھارت کو فون پر بتایا کہ اس کا بھائی منشیات کے کیس میں بیرونی ریاست جیل میں بند تھا جس کے بعد انہوں نے زمین بیچ کر انہیں آٹھ سال کے بعد رہا کروایا۔ ان کے مطابق ان کا بھائی گھر میں عام شہری کی طرح کچھ ماہ ٹھیک رہا۔

لیکن تقریبا چھ ماہ کے بعد اس کے بھائی نے سرینگر کے بٹہ مالو کی لڑکی کے ساتھ گھر والوں کو مطلع کئے بغیر شادی کر لی۔

گھر والوں کے مطابق کچھ ماہ تک میاں بیوی ہمارے ساتھ ٹھیک رہتے تھے، لیکن بعد ازاں ہماری بھابی نے گھر میں علاہدہ رہنے کے لیے میری ماں پر دباؤ ڈالا ۔

تاہم میری ماں نے اسے کہا کہ اسکے چار اور بیٹے ہیں اور وہ اس موڑ پر ان کو علیٰحدہ رہنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ اس بعد میرا بھائی بیوی کے ساتھ سسرال گیا اور معمول کے مطابق ٹرک ڈرائیوری کرتا رہا لیکن اس عرصے کے دوران وہ گھر نہیں آیا۔

گھر والوں کے مطابق ان کا بھائی بیرون ریاست ڈرگ سمیت پکڑا گیا جس کے بعد سے اب تک وہ بند ہے۔

اس دوران سرینگر میں رہنے والی ہماری بھابی ہمیں کہہ رہی کہ' زمین بیچ کر اسکی رہائی کے لیے کچھ کیا جائے ، جو ہم نہیں کر سکتے کیونکہ اب ہمارے پاس کچھ نہیں ہے'۔

انہوں نے میڈیا سے گزارش کی کہ' اس طرح کے کیسز کو ہائی لائٹ کرنے سے قبل تہہ تک جائیں اور حقائق کو عوام کے سامنے لائے' ۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details