مرکزی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کو دفعہ 370 اور 35 اے کے تحت حاصل خصوصی حیثیت کو منسوخ کیے جانے کو 9 مہینے سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے تاہم زمینی سطح پر کچھ زیادہ تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔ وادی کے باشندگان کا کہنا ہے پہلے دفعہ 144 کے تحت نافذ پابندیوں سے اور اب کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر کے تحت پابندیوں سے ان کا کام کاج متاثر ہوا ہے۔
ڈل جھیل میں آج بھی ہاؤس بوٹز خالی ہیں، ہوٹل کوارنٹین مراکز میں تبدیل کئے گئے ہیں، دکانیں اور تجارتی مراکز بند ہیں، عوامی آمدورفت پر آج بھی پابندیاں برقرار ہیں۔
وادی کے صنعت کاروں کا ماننا ہے کہ 'جب کورونا وائرس کا لاک ڈاؤن ہٹایا جائے گا تبھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمیں کتنا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔'
کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے پریذیڈنٹ شیخ عشق احمد کا کہنا ہے کہ 'گزشتہ برس پانچ اگست سے لے کر اب تک وادی کے تاجر نقصان برداشت کر رہے ہیں۔ گزشتہ برس کے دسمبر مہینے کے پہلے ہفتے تک ہمارا نقصان 18 ہزار کروڑ سے تجاوز کر چکا تھا اور آج بھی یہ نقصان جاری ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے کوئی رعایت نہیں بخشی گئی۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم نے سوچا تھا کہ موسم بہار کے آمد کے ساتھ ہی ہم اپنا کاروبار دوبارہ شروع کریں گے تاہم اب کورونا وائرس کے پیش نظر لگائی گئی پابندیوں سے ہماری مشکلات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'ہاؤس بوٹ مالکان، ہوٹل مالکان اور سیاحت سے وابستہ افراد کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔'
گزشتہ برس پانچ اگست کو وادی کے سیاسی رہنماؤں کو احتیاطی حراست میں لیا گیا تھا۔ ان میں نیشنل کانفرنس کے ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمرعبداللہ، علی محمد ساگر، سلمان ساگر، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی، وحید پرہ، نعیم اختر، پیپلز کانفرنس کے سجاد غنی لون سمیت 42 دیگر سیاسی رہنماؤں کو زیر حراست رکھا گیا۔ ان میں سے سات رہنماؤں پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا گیا۔
گزشتہ برس کے آخر سے ان رہنماؤں پر پی ایس اے منسوخ کر کے ان کی مرحلہ وار رہائی کا عمل شروع ہوا۔ رواں سال 13 مارچ کو جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلی ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو رہا کیا گیا اس کے بعد 24 مارچ کو عمر عبداللہ کو رہا کیا گیا۔ تاہم محبوبہ مفتی، علی محمد ساگر، شاہ فیصل اور سرتاج مدنی ابھی بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں ہے۔
جموں کشمیر میں پنچایت انتخابات کا انعقاد کرنے کا اعلان کیا گیا تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے ان انتخابات کا انعقاد نہیں ہو سکا۔
جموں و کشمیر کے شہریت قانون میں ترمیم کی گئی