اردو

urdu

ETV Bharat / city

دفعہ 370 کی منسوخی کے نو ماہ بعد بھی زندگی جوں کی توں

ڈل جھیل میں آج بھی ہاؤس بوٹ خالی ہیں، ہوٹل کورنٹین مراکز میں تبدیل کئے گئے ہیں، دکانیں اور تجارتی مراکز بند ہیں، عوامی آمدورفت پر آج بھی پابندیاں برقرار ہیں۔

Abrogation of Article 370: Nine months later
دفعہ 370 کی منسوخی کے نو ماہ بعد بھی زندگی جوں کی توں

By

Published : Apr 29, 2020, 10:21 AM IST

مرکزی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کو دفعہ 370 اور 35 اے کے تحت حاصل خصوصی حیثیت کو منسوخ کیے جانے کو 9 مہینے سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے تاہم زمینی سطح پر کچھ زیادہ تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔ وادی کے باشندگان کا کہنا ہے پہلے دفعہ 144 کے تحت نافذ پابندیوں سے اور اب کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر کے تحت پابندیوں سے ان کا کام کاج متاثر ہوا ہے۔

ڈل جھیل میں آج بھی ہاؤس بوٹز خالی ہیں، ہوٹل کوارنٹین مراکز میں تبدیل کئے گئے ہیں، دکانیں اور تجارتی مراکز بند ہیں، عوامی آمدورفت پر آج بھی پابندیاں برقرار ہیں۔

وادی کے صنعت کاروں کا ماننا ہے کہ 'جب کورونا وائرس کا لاک ڈاؤن ہٹایا جائے گا تبھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمیں کتنا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔'

کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے پریذیڈنٹ شیخ عشق احمد کا کہنا ہے کہ 'گزشتہ برس پانچ اگست سے لے کر اب تک وادی کے تاجر نقصان برداشت کر رہے ہیں۔ گزشتہ برس کے دسمبر مہینے کے پہلے ہفتے تک ہمارا نقصان 18 ہزار کروڑ سے تجاوز کر چکا تھا اور آج بھی یہ نقصان جاری ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے کوئی رعایت نہیں بخشی گئی۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم نے سوچا تھا کہ موسم بہار کے آمد کے ساتھ ہی ہم اپنا کاروبار دوبارہ شروع کریں گے تاہم اب کورونا وائرس کے پیش نظر لگائی گئی پابندیوں سے ہماری مشکلات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'ہاؤس بوٹ مالکان، ہوٹل مالکان اور سیاحت سے وابستہ افراد کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔'

گزشتہ برس پانچ اگست کو وادی کے سیاسی رہنماؤں کو احتیاطی حراست میں لیا گیا تھا۔ ان میں نیشنل کانفرنس کے ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمرعبداللہ، علی محمد ساگر، سلمان ساگر، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی، وحید پرہ، نعیم اختر، پیپلز کانفرنس کے سجاد غنی لون سمیت 42 دیگر سیاسی رہنماؤں کو زیر حراست رکھا گیا۔ ان میں سے سات رہنماؤں پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا گیا۔


گزشتہ برس کے آخر سے ان رہنماؤں پر پی ایس اے منسوخ کر کے ان کی مرحلہ وار رہائی کا عمل شروع ہوا۔ رواں سال 13 مارچ کو جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلی ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو رہا کیا گیا اس کے بعد 24 مارچ کو عمر عبداللہ کو رہا کیا گیا۔ تاہم محبوبہ مفتی، علی محمد ساگر، شاہ فیصل اور سرتاج مدنی ابھی بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں ہے۔

جموں کشمیر میں پنچایت انتخابات کا انعقاد کرنے کا اعلان کیا گیا تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے ان انتخابات کا انعقاد نہیں ہو سکا۔

جموں و کشمیر کے شہریت قانون میں ترمیم کی گئی


رواں مہینے کی تین تاریخ کو مرکزی حکومت نے دو روز قبل جاری کیے گئے شہریت قانون کو ترمیم کیا۔ شدید نکتہ چینی کے بعد مرکزی حکومت کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ نئے حکم نامے کے مطابق جو افراد جموں و کشمیر میں 15 سال سے زائد عرصے سے رہ رہے ہوں یا پھر سات سال تک تعلیم حاصل کی ہوں اور دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات بھی یہیں پاس کیے ہوں وہ جموں کشمیر میں گیذیٹڈ اور نان گیذیٹڈ سرکاری نوکریوں کے لیے عرضی داخل کر سکتے ہیں۔ تاہم اس آرڈر کی بھی کافی مخالفت ہو رہی ہے۔

جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی میں اضافہ
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 5 اگست کے بعد مارچ ماہ کی آخر تک تقریبا 2000 سیز فائر وائلیشن کے واقعات پیش آئے ہیں۔ 2019 میں کل 1629 واقعات پیش آئے تھے۔ وہی عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے بھی کی گئی کارروائی میں کوئی نمایاں کمی دیکھی کو نہیں مل رہی ہے۔


بین الاقوامی ممالک کے سفیر وادی کشمیر کے دورے پر
گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد بین الاقوامی وفود تین بار کشمیر کے دورے پر آئے۔ پہلی بار اکتوبر کے مہینے میں، دوسری بار جنوری میں اور تیسری بار فروری میں۔ ان وفود کا کشمیر آنے کا مقصد یہاں کی صورتحال کا جائزہ لینا اور اصل حقائق منظر عام پر لانا تھا تاہم ابھی تک ایسا کچھ بھی ممکن نہیں ہو پایا۔ نہ ہی ان وفود نے کوئی رپورٹ پیش کی ہے۔

فور جی سروس ہنوز معطل
رواں سال کی 25 جنوری کو وادی کشمیر میں 2 جی موبائل انٹرنیٹ خدمات بحال کی گئیں اور عوام کو 301 ویب سائٹ وائٹ لسٹ رکھی گئی۔ مرحلہ وار ویب سائٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا تاہم 4 جی سروس اب بھی معطل ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے گزشتہ روز ایک بیان کے مطابق گیارہ مئی تک 2جی خدمات برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔

تعلیم پر منفی اثر
جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی وجہ سے وادی کشمیر میں طلباء کو سات ماہ تک تعلیم سے دور رہنا پڑا۔ روا برس 24 فروری کو اسکول کھلے اور دس مارچ کو دوبارہ سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر کے تحت بند کر دیئے گئے۔ استاتذہ، طلبا اور ان کے والدین کو ہدایت دی گئی کہ وہ آن لائن کلاسز کا اہتمام کریں تاہم سست رفتار انٹرنیٹ ہونے کی وجہ سے طلباء کی تعلیم کافی حد تک متاثر ہو رہی ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details