ہماچل پردیش ایجوکیشن بورڈ کے دسویں جماعت کے امتحان میں پورٹمور اسکول کی طالبہ کے حساب میں کم نمبرات آنے کی وجہ سے شکایت کی گئی جس کے بعد غلطی کو دور کیا گیا ہے، پہلے طالبہ کو ریاضی کے پیپر میں 100 میں سے 43 نمبر دیئے گئے تھے لیکن دوبارہ کاپی چیک کرنے کے بعد طالبہ کو پورے نمبر دیئے گئے۔۔
دسویں جماعت کا نتیجہ: ہماچل پردیش ایجوکیشن بورڈ کی لاپرواہی طالبہ کو ریاضی میں صحیح نمبرات حاصل ہونے کے بعد طالبہ نے اسکول کو ٹاپ کرنے کے علاوہ ضلع کے ٹاپ ٹین طلباء میں بھی اپنی جگہ بنا لی ہے۔ جب طالبہ کا نتیجہ آیا تو وہ اپنے ریاضی کے مضمون کے نمبرات کو دیکھ کر حیران تھی۔
طالبہ کو توقع تھی کہ وہ اپنے ریاضی کے مضمون کو دیکھتے ہوئے بہتر نمبر حاصل کرے گی۔ اسکول کی ٹاپر ہونے کی وجہ سے پرنسپل نریندر سود کی جانب سے فوری طور پر جانکاری لی گئی اور یہ معاملہ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر سریش کمار سونی کے سامنے اٹھایا گیا۔
اسکول پرنسپل کی جانب سے ہماچل پردیش اسکول ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین سے اپیل کی گئی تھی کہ طالبہ کے ریاضی کے پیپر کو دوبارہ چیک کیا جائے۔ اس نے یہ اپیل قبول کرلی اور جب شگن کے ریاضی کے پیپر کی جانچ پڑتال کی گئی تو طالب علم کے نمبر 43 سے 100 ہوئے۔
پرنسپل کی انکوائری پر طالبہ نے بھی یہی بات کہی تھی کہ اسے یقین ہے کہ اسے ریاضی میں 100 میں سے 100 نمبر ملیں گے۔ اسکول پرنسپل نے یہ مسئلہ صرف تعلیمی بورڈ کے سامنے طالبہ کی سابقہ کارکردگی میں حاصل کردہ نمبروں پر اٹھایا۔ جس کا نتیجہ بھی بہتر نکلا۔ اسکول کے پرنسپل نریندر سود نے طالبہ کے کاغذات چیک کرنے پر بورڈ کے عہدیداروں کا شکریہ ادا کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ طالبہ ہر کلاس میں اسکول کی ٹاپ رہ چکی ہے اور اس کی کلاس 10 کے نتیجے میں دوسرے مضامین میں بھی بہتر نمبر آئے ہیں۔ اس نے صرف ریاضی میں 43 نمبرات حاصل کئے جس پر نہ تو کلاس ٹیچر اور نہ ہی طالبہ کو یقین ہورہا تھاا۔
اسی کے پیش نظر بورڈ کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا گیا اور بورڈ نے بغیر کسی تاخیر کے طالب علم کی مارک ٹیبل میں کی گئی غلطی کی اصلاح کی اور اس کے نمبر درست کردیئے گئے۔
طالب علم اور اس کے والدین بھی ریاضی کے نمبروں میں بہتری پر خوش ہیں اور انہوں نے اسکول کے پرنسپل کے ساتھ ساتھ بورڈ کے صدر کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔
اگرچہ بورڈ کے ذریعہ طلبہ کے نمبروں میں بہتری کی گئی ہے لیکن یہ ایک بہت بڑا سوال ہے کہ اتنی بڑی غلطی کہاں اور کیسے ہوئی اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟