عیدالاضحی کے مدنظر شہر میں جگہ جگہ مویشیوں کی منڈیاں لگی ہوئی ہیں اور لوگ پورے ایمانی جوش و جذبہ کے ساتھ قربانی کے جانوروں کی خریداری میں مصروف ہیں، تاہم اس سال قربانی کے جانوروں کی قیمتوں میں کافی اضافہ دیکھا جارہاہے۔ حسب سابق اس مرتبہ بھی مسلمانوں میں عیدالاضحی کے مدنظر زبردست جوش و خروش دکھائی دے رہاہے اور لوگ اپنی اپنی جانب سے قربانی کی تیاریوںمیں مصروف نظر آرہے ہیں۔ قربانی کے جانوروں کی خریداری کے لئے محلہ بڑضیاءالحق، بیرون کوٹلہ، نیم تلہ،ریتی چوک، قلعہ اور پٹھانپورہ وغیرہ پر جانوروں کی منڈیاں لگی ہوئی ہیں، جہاں خریداروں کی بھی زبردست بھیڑ ہے، اتنا ہی نہیں بلکہ لوگ سڑکوں پر گھوم گھوم کر جانوروں کو فروخت کرتے نظر آرہے ہیں۔
جانوروں کے تاجروں کے مطابق اس مرتبہ بازارمیں کٹرے کی قیمت 18 ہزار روپیہ سے لے کر چالیس ہزار روپئے تک ہے جبکہ بکرا آٹھ ہزار روپیہ سے پینتیس ہزار روپے تک فروخت ہو رہا ہے۔بھینس بھی مارکیٹ میں موجود ہے جو چالیس سے ساٹھ ہزار روپیہ تک فروخت ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سالوں کے مقابلے جانوروں کی قیمتیں اس سال تیزی سے بڑھ رہی ہیں، اس کے باوجود لوگ جم کر جانوروں کی خریداری کررہے ہیں۔عیدالاضحی کے مدنظر شہر میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی جانب سے قربانی کی جاتی ہے۔ میونسپل انتظامیہ نے بھی سڑکوں سے گندی صاف کرنے کے لئے کمر کس لی ہے۔
قاری رحیم الدین قاسمی نے کہا کہ ویسے تو مسلمان جس طرح سے قربانی کرتے چلے آرہے ہیں اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اسی جوش و خروش کے ساتھ مسلمان قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں بس البتہ کورونا وائرس کے چلتے ہوئے جو ہندوستانی ملک کی گائیڈ لائن ہے اس پر عمل کرتے ہوئے قربانی کرنی ہے اور خود اسلام نے بھی اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کی کوئی گندگی کی جائے یا جو ملبے ہیں وہ ادھر ادھر پھینک دیے جائیں ہمارا مذہب خود ہی سکھاتا ہے کی گندگی نہ کی جائے اور ہمیں یقین ہیں کہ مسلمان ایسی کوئی حرکت نہیں کریں گے جس سے کسی کو کوئی تکلیف پہنچے اور مذہب اسلام بھی ایسا نہیں ہے کہ کسی کو کوئی تکلیف پہنچانے کا کام کرے انہوں نے آگے بتاتے ہوئے کہا کہ جو اجتماعی قربانی ہوتی تھی اس میں احتیاط بھی کی جا رہی ہے اور جو مدرسہ قربانی کرتا تھا وہ چمڑے کی وجہ سے کرتا تھا چمڑے کا فائدہ مدرسے کا ہوتا تھا چونکہ چمڑے کا بالکل ریٹ نہیں ہے اس لیے مدرسے والوں نے اس کو بہت کم کر دیا ہے بس جو ضروری ہے وہی کیا جاتا ہے۔