ریاست مدھیہ پردیش میں بانس ساگر بدعنوانی کیس 40 ملزمان کے خلاف الزامات طے کیے گئے ہیں جس میں بانس ساگر کے اس وقت کے سی ای سمیت سپرنٹنڈنٹ انجینیئرز، اور ایگزیکٹو انجینئرز کے علاوہ سامان فراہم کرنے والے فرم آپریٹرز بھی ہیں۔
بانڑھ ساگر بدعنوانی معاملے میں الزامات طے بدعنوانی کی شکایت کے بعد ابتدائی تفتیش میں 214 کروڑ روپے کی سٹیشنری میٹریل کی جعلی فروخت کا انکشاف ہوا لیکن جب یہ مقدمہ سنہ 2008 میں درج کیا گیا تھا اور ای او ڈبلیو جبل پور کے ذریعہ شروع کی گئی تو اس وقت اس گھوٹالے کو پرت در پرت کھلتی گئی اور دھوکہ دہی کی رقم 1250 کروڑ سے زیادہ ہوگئی۔
واضح رہے کہ بانس ساگر محکمہ آبی وسائل بدعنوانی کیس شاید مدھیہ پردیش کا اب تک کا سب سے بڑا گھوٹالہ ہے جس میں افسران نے 1250 کروڑ کا گھوٹالہ کیا ہے۔
اس معاملہ میں مقدمہ سنہ 2008 میں درج کیا گیا تھا بانس ساگر کیس میں 40 ملزمان کے خلاف الزامات طے کیے گئے ہیں تاہم عدالت میں مقدمہ بھی پانچ فروری کو شروع ہوا اور اب نو مارچ گواہی کے لیے بھی مقرر کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ مدھیہ پردیش، اترپردیش اور بہار کے اشتراک سے بانس ساگر منصوبے میں تین چیف انجینیئرز نے خریداری اور سامان کی فراہمی کے نام پر بدعنوانی کی تھی۔
بدعنوانی کی شکایت کے بعد ابتدائی تفتیش میں 214 کروڑ روپے کی سٹیشنری میٹریل کی جعلی فروخت کا انکشاف ریاستی اقتصادی جرائم کی تفتیشی بیورو (ای او ڈبلیو) نے 12 برس قبل ایک ایف آئی آر درج کی تھی اور سرکاری وکیل کے مطابق یہ بدعنوانی معاملہ 1250 کروڑ سے زیادہ کا ہے۔
خصوصی پبلک پراسیکیوٹر ای ڈبلیو اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ پراسیکیوشن آفیسر انجو پانڈے نے بتایا کہ سنہ 2012 میں ریوا کی خصوصی عدالت میں پیش کردہ چالان کی سماعت کے دوران خصوصی جج گریش دکشت کی عدالت نے 12 سرکاری ملازمین اور 28 سپلائرز اور فرم کے آپریٹرز پر الزامات طے کیے ہیں تاہم الزامات ان سب کے خلاف بھی مقدمے کی سماعت شروع کردی گئی ہے۔
بانڑھ ساگر بدعنوانی کیس میں سی ای سمیت سپرنٹنڈنٹ انجینیئرز، ایگزیکٹو انجینیئرز کے علاوہ 40 ملزمان پر الزامات واضح رہے کہ اس کیس میں پہلی ایف آئی آر سنہ 2004 سے 2008 کے درمیان بدعنوانی، جعلسازی، امانت اور مجرمانہ سازشوں کی یصدیق ہونے کے بعد درج کی گئی تھی اور تحقیقات کے بعد چالان سنہ 2012 میں پیش کیا گیا تھا اور اسی کے بعد ضمنی چالان بھی عدالت میں پیش کردیے گئے۔
بانس ساگر پروجیکٹ میں ہونے والے بدعنوانی پر 2200 کروڑ سے زیادہ کی دھوکہ دہی کے لیے شکایت کنندہ نے شکایت درج کروائی تھی اور اس کیس میں جن لوگوں کو ملزم بنایا گیا انھوں نے مبینہ طور پر جعلی فرموں سے کروڑوں کی ادائیگی کی تھی لیکن ان کے فرمز کہاں ہیں آج تک اس کا پتہ نہیں چل سکا۔