اردو

urdu

ETV Bharat / city

مرکزی حکومت کے طریقہ کار سے ملک میں نفرت وعصبیت کومل رہا ہے فروغ : قاسمی - مذہب کی بنیاد پر کھلی تفریق ہے

قومی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل مولانا انیس الرحمن قاسمی نے کہاکہ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ جب سے مرکز میں این ڈی اے کی سرکار آئی ہے ، اس نے اپنے قانون سازی ،بیانات اورطریقہ سے ملک میں نفرت اور تعصب کوبڑھاوا دیاہے،وہ یہاں کے شہریوں کو تقسیم کرنے کاکام کرہی ہے۔

مرکزی حکومت کے طریقہ کار سے ملک میں نفرت وعصبیت کومل رہا ہے فروغ : قاسمی
مرکزی حکومت کے طریقہ کار سے ملک میں نفرت وعصبیت کومل رہا ہے فروغ : قاسمی

By

Published : Jan 31, 2020, 8:25 PM IST

Updated : Feb 28, 2020, 5:02 PM IST

مسٹر قاسمی نے کہا کہ وہ آئین کی بنیادوں پر کئی مرتبہ منظم حملہ کرچکی ہے، ملک کے سیکولر اور جمہوری بنیادوں کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کے ساتھ آئین ودستور کے خلاف قوانین بنا رہی ہے۔ اسی کی ایک کڑی سی اے اے یعنی سٹیزن امینڈمنٹ ایکٹ9102ای ہے۔ بھارتی دستور کے بنیادی اصولوں اوردفعات کے خلاف ہے، آئین ہند کی دفعہ 14 اور15 میں بھارت کے سبھی شہریوں کو یکساں حقوق دیے گئے ہیں، اور اس میں مذہب کی بنیادپر کسی بھی تفریق کو درست قرار نہیں دیاگیاہے، شہریت ترمیمی قانون2019 میں بغیر کسی دستاویز کے غیرقانونی طورپرداخل ہونے والوں کوشہریت دی گئی ہے۔

اس فہرست سے صرف مسلمانوںکو الگ رکھا گیا ہے، جو مذہب کی بنیاد پر کھلی تفریق ہے،یہ ملک کی سیکورٹی کے لحاظ سے بھی خطرناک ہے۔سرکار نے اس قانون میںمذہبی استحصال کو بنیاد بنایاگیاہے ،جوپورے طورپرحقیقت پر مبنی نہیں ہے اوراگر یہ صحیح مان بھی لیا جائے تو پھرسوال ہے کہ افغانستان ، بنگلہ دیش اور پاکستان کے ساتھ نیپال ، چین ، میانمار، سری لنکا اور تبت وغیرہ کوشامل نہیں گیا ہے،یہ بھی بھارت کے پڑوسی ممالک ہیں جہاں سے مذہبی بنیاد پر استحصال کے شکار لوگوں نے ترک وطن کیا ہے، سری لنکا میں ہزاروں تمل استحصال کے شکار ہوئے۔

میانمار میں روہنگیا کو مذہب کی بنیاد پر ظلم کا شکار بنایا گیا، تبت میں دلائی لاما اور ان کے عقیدت مندوں پر ظلم کیا گیا۔ جس کی وجہ سے ان کو ترک وطن کر کے ہندوستا ن میں پناہ لینی پڑی، نیپال سے سیکڑوں گورکھا لوگوں کو پریشان ہو کر ترک وطن کرنا پڑا، ان سب کا ذکر نہ کرنا یہ بتلاتا ہے کہ یہ قانون خامیوں اور مذہبی تعصب سے بھرا ہوا ہے اور آئین کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مرکزی حکومت کی طرف سے بار باریہ کہا جا رہا ہے کہ یہ قانون شہریت دینے والا ہے ، شہریت چھیننے والا نہیں ہے ، یہ سراسر دھوکا ہے ، کیوں کہ سی اے اے کو این آر سی وراین پی آر سے جوڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے اور وزیر داخلہ بھی حکومت کی اس پالیسی کو کئی بار ظاہر کر چکے ہیں ،کہ سی اے اے کے بعد وہ این آر سی لائیں گے اور سبھی گھس پیٹھیوں کو ملک سے نکالیں گے۔

اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو لوگ کاغذ کے ذریعہ اپنی شہریت ثابت نہیں کر سکیں گے، ان کو سرکار کے ذریعہ پریشان کیا جائے گا، سبھی کمزور، دلت، آدیواسی، پچھڑے، ان پڑھ، غریب ،کسا ن ، مزدور ، شیڈول کاسٹ وشیڈول ٹرائب ، خانہ بدوش، بے گھر ، سڑکوں کے کنارے اور فٹ پاتھوں کے کنارے گزارہ کرنے والے ، آشرموں میں رہنے والی خواتین، یتیم و بے سہارا ناگا ودیگرسادھو سنت بھی اس قانون کی زد میں آئیں گے۔

وہ لوگ جو روزانہ کماتے کھاتے ہیں ، اور جن کے لیے باپ دادا کے کاغذات اکٹھا کرنا ناممکن ہے ، ایسے لوگوں سے ان کی شہریت چھین کر ان کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا ، ان کے ووٹ کے حق کو ختم کرنا اور ان سے ریزرویشن کا حق چھین لینا اس حکومت کا ایجنڈا ہے۔ اس لیے آج ہم اس قانون کو پوری طرح سے رد کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ ہم کسی بھی حال میں سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کو قبول نہیں کریں گے۔

Last Updated : Feb 28, 2020, 5:02 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details