شہر عظیم آباد یوں تو کئی روایتوں کا امین رہا ہے، یہاں آج بھی کئی ایسے نشانات باقی ہیں جو عہد مغلیہ کی یاد تازہ کراتی ہے، انہیں میں سے ایک ہے پٹنہ سیٹی میں واقع سیف خان کی شاہی مسجد، گنگا کے ساحل پر واقع پانچ گنبد والی یہ شاہی مسجد زمانہ قدیم میں اسلامی ادب کا مشہور مرکز تھا، یہ مسجد ہندوستان کی قدیم مسجدوں میں سے ایک ہے جو 1628ء میں تعمیر ہوئی، اس مسجد کی بنیاد سیف خان نے خود رکھی تھی جو اس وقت بہار کے گورنر اور بادشاہ شاہ جہاں کے ہم زلف تھے. ملک جب انگریزوں کا غلام تھا، تب ہندوستان کی آزادی میں اس مسجد نے اہم کردار ادا کیا تھا، یہ مسجد آزادی کے سلسلے کے عملی اقدامات کا مرکز رہی ہے، اس زمانے میں یہاں فکر و نظر رہنما اور سیاست دان جمع ہوتے تھے، سینکڑوں جلسہ و جلوس اس کیمپس میں ہوئے، مہاتما گاندھی، مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر راجندر پرشاد، جواہر لعل نہرو، محمد علی جناح، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی جیسے سیاسی رہنما یہاں شریک ہوتے تھے اور اپنی تقریروں سے تحریک آزادی کو تقویت بخشتے تھے. مقامی 83 سالہ نبی حسن بتاتے ہیں کہ اس وقت آزادی کے لیے ہو رہی جدوجہد کے سارے مناظر کے وہ گواہ ہیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے. Four Hundred Year Old and Historic Royal Mosque
Four Hundred Year Old Royal Mosque: بہار کی چار سو سالہ تاریخی شاہی مسجد، مغلیہ عہد کے فن تعمیر کا شاہکار
مدرسہ مسجد علوم و فنون کے لحاظ سے ملکی سطح پر صف اول کا ممتاز تعلیمی ادارہ سمجھا جاتا تھا، اس میں حکمت، فلسفہ، ریاضی، طب، تواریخ، جغرافیہ پڑھائی ہوتی تھی، اس وقت یہاں دو سو ستر طلباء اور دس مدرس قیام پذیر تھے ، سب کی رہائش، کھانے اور کپڑے کا نظم مدرسہ مسجد کی جانب سے ہوتا تھا، ملا نصیرالدین یہاں کے مشہور استاذ تھے-Four Hundred Year Old and Historic Royal Mosque
اس مسجد کی خاص بات یہ ہے کہ اس عہد میں سیف خاں نے تعلیمی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ بھی قائم کیا تاکہ عبادت کے ساتھ لوگ دینی و عصری علوم بھی حاصل کر سکیں، اسی وجہ سے اس کا نام مدرسہ مسجد پڑ گیا اور اسی نام سے مشہور ہوا.
مدرسہ مسجد علوم و فنون کے لحاظ سے ملکی سطح پر صف اول کا ممتاز تعلیمی ادارہ سمجھا جاتا تھا، اس میں حکمت، فلسفہ، ریاضی، طب، تواریخ، جغرافیہ پڑھائی ہوتی تھی، اس وقت یہاں دو سو ستر طلباء اور دس مدرس قیام پذیر تھے ، سب کی رہائش، کھانے اور کپڑے کا نظم مدرسہ مسجد کی جانب سے ہوتا تھا، ملا نصیرالدین یہاں کے مشہور استاذ تھے،
راجہ رام موہن رائے بھی عربی فارسی اور اسلامی ادب کا علوم حاصل کرنے کے لئے یہاں آئے تھے ، اسی طرح داغ دہلوی، لالہ رام چندر فرحت، بہادر خان، شاہ غلام حسین، شاہ ابو الحسن، مہاراجہ ستاب رائے، حسن قلی خان فانی وغیرہ کئی شہرت یافتہ شعراء ادیب نے ملک و بیرون ملک اس مدرسے کا نام روشن کیا ہے.
مزید پڑھیں:پٹنہ: حج ہاؤس کی مسجد میں نماز جمعہ ہوگی
مگر ملک کی آزادی کے ساتھ ہی اس مدرسہ مسجد کا زوال شروع ہو گیا، مدرسہ کھنڈر میں تبدیل ہوکر ختم ہو گیا، یہاں کی عمارت پر لوگوں نے غیر قانونی قبضہ بھی کر لیا، جبکہ یہ مدرسہ مسجد بہار سنی وقف بورڈ کے ماتحت ہے، باوجود اس کے قابض لوگوں کو ہٹانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے. باقی بچ گئی مسجد، پانچ گنبد والی یہ مسجد پٹنہ کے پاس گنگا کنارے کھڑی اپنے تنہائی پر آنسو بہا رہی ہے. بہار وقف بورڈ اس سمت میں کوشش کرے تو دوبارہ سے مدرسہ کی تعمیر کرا کر ایک قدیم روایت کو زندہ کر سکتی ہے۔