ریاست بہار کے دارسلحکومت پٹنہ جو کسی زمانے میں عظیم آباد کے نام سے مشہور تھا۔ ادیبوں، شاعروں اور اردو داں طبقے کے لئے کسی مرکز سے کم نہیں تھا۔ دراصل عظیم آباد ہر دور اور ہر زمانہ کے ساتھ موجودہ وقت میں بھی اردو ادب کی آبیاری کررہا ہے۔ تاریخ کے صفحات پر نظر ڈالتے ہیں تو بہار کے دارالحکومت پٹنہ کی تاریخ علمی، ادبی و تہذیبی اعتبار سے درخشاں و منور رہی ہے۔ موجودہ وقت میں پٹنہ تاریخ کے اس درخشاں باب کے ساتھ مربوط رہنے کی جدوجہد کررہا ہے۔
شہر کے قلب میں موجود اشوک راج پتھ پر واقع ملک کی قدیم لائبریریوں میں سے ایک "گورنمنٹ اردو لائبریری" علمی پیاس بجھانے والوں کے لئے اہم لائبریری ہے۔ جس کا قیام ملک کی آزادی سے قبل 1938 میں عمل میں آیا تھا، اس لائبریری کی بنیاد ڈاکٹر سید محمود نے ڈالی تھی جو بہار کے پہلے وزیر تعلیم تھے۔
پٹنہ کی یہ گورنمنٹ اردو لائبریری ہندوستان کی پہلی اردو لائبریری ہے جو مکمل طور سے ریاستی حکومت کے ماتحت ہے، اس کا انتظام و انصرام حکومت بہار خود کرتی ہے۔
گورنمنٹ اردو لائبریری یہاں کے طلباء، ریسرچ اسکالرز، اساتذہ و دانشوران کے لئے کسی درسگاہ سے کم نہیں، یہاں زیادہ تر طلبا امتحان کی تیاری میں معاون کتابیں حاصل کرنے اور ریسرچ اسکالرز اپنے موضوع کی مناسبت سے علمی مواد حاصل کرنے پہنچتے ہیں۔ گورنمنٹ اردو لائبریری میں چالیس ہزار سے زائد نادر کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے، لائبریری میں روزانہ ساٹھ سے ستر کی تعداد میں لوگ فیض یاب ہوتے ہیں، کہنے کو تو اردو لائبریری ضرور ہے مگر یہاں اردو ادب کے علاوہ ہندی ادب، تاریخ، انجینیئرنگ اور سائنس سے بھی متعلق کتابیں موجود ہیں۔ جن سے بلا تفریق ہر طبقہ کے ضرورت مند فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اس لائبریری کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہاں 1938 سے لے کر اب تک کے تمام اردو اخبارات و رسائل محفوظ ہیں۔ جس کے لئے ایک بڑا ہال مختص کیا گیا ہے اور اس کی نگرانی کے لئے مستقل لوگوں کی ایک ٹیم مقرر ہے۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود گورنمنٹ اردو لائبریری کی یہ بدنصیبی کہی جائے گی کہ یہاں گزشتہ تین سال سے چئیرمین کا عہدہ خالی ہے، محکمۂ تعلیم کے ڈپٹی سکریٹری ارشد فیروز اس وقت انچارج چیئرمین کی حیثیت سے مقرر ہیں، لائبریری کی کمیٹی تحلیل ہے اور دس اہم عہدوں میں سے آٹھ عہدے ملازمین سے خالی ہوچکے ہیں۔ جس پر اب تک دوبارہ ملازمین کی مستقل بحالی نہیں ہوئی ہے۔