اردو

urdu

ETV Bharat / city

بہار اسمبلی انتخابات 2020 اور مسلمان

بہار اسمبلی انتخابات 2020 کی سرگرمیاں زوروں پر ہیں، پہلے مرحلے کے لیے پرچہ نامزدگی داخل ہوچکی ہے، جس میں 1065 امیدوار اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی 'اپنی ڈفلی اپنا راگ' سے عوام کو مائل کرنے کی بھرپور کوشش کررہی ہے۔ اقتدار کی کرسی پر کون براجمان ہوگا اور کس کی قسمت میں اپوزیشن میں بیٹھنا لکھا ہے اس کا فیصلہ 10 نومبر کو ہوجائے گا لیکن اس سے پہلے ووٹروں کو کیا کچھ دیکھنے کو ملے گا عنقریب سب کچھ سامنے آ جائے گا۔

how muslims vote affected bihar polls 2020
how muslims vote affected bihar polls 2020

By

Published : Oct 20, 2020, 7:16 PM IST

اس بار کے بہار انتخابات بہت دلچسپ اور الجھنوں سے پرُ ہیں کورونا وائرس کی وجہ سے جہاں الیکشن کمیشن سے لے کر ووٹر کافی خوفزدہ ہے تو وہیں سیکولر پارٹیاں اپنا اپنا محاذ بناکر ووٹروں کو نہ صرف کنفیوژ کر رہی ہیں بلکہ نادانستہ طور پر دائیں بازو کی سیاسی جماعت کو اقتدار کی چابی سونپنے کی بھر پورکوشش کر رہی ہے۔ بی جے پی اور این ڈی اے کو اقتدار سے دور رکھنے کا نعرہ دینے والی یہ سیاسی پارٹیاں یہ طے ہی نہیں کر پارہی ہیں کہ وہ ووٹروں کو کیا متبادل نظام فراہم کرائیں گی۔

بہار اسمبلی انتخابات 2020 اور مسلمان

ایک طرف این ڈی اے سے لوک جن شکتی پارٹی الگ ہوکر بھی الگ نہیں ہے۔ چراغ پاسوان نے نتیش کمار کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ انتخابات سے عین قبل ان کے والد رام ولاس پاسوان کی موت انہیں ہمدردی کا ووٹ بھی دلاسکتی ہے جس کا نقصان جے ڈی یو کو ہی جھیلنا پڑے گا۔

جے ڈی یو کے سربراہ نتیش کمار بی جے پی - جے ڈی یو اتحاد کا چہرہ ہیں اور ان کے ساتھ مکیش سہنی کی پارٹی وی آئی پی بھی ہے۔ تو دوسری طرف مہاگٹھبندھن یا عظیم اتحاد میں آر جے ڈی، کانگریس اور بائیں محاذ کی پارٹیاں شامل ہیں۔

آر ایل ایس پی - بی ایس پی اور اے آئی ایم آئی ایم نے اپنا ایک الگ محاذ بنایا ہے۔ پشپم پریا کی پارٹی پلورل پارٹی آف انڈیا جو نئی سیاسی جماعت ہے، نے بھی میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان ساری سرگرمیوں میں مسلم امیدوار یا مسلمانوں کا کیا ہوگا کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور میں واضح نہیں ہے۔ حتیٰ کہ عظیم اتحاد کی پریس کانفرنس میں ایک بھی مسلم چہرہ نظر نہیں آیا۔ ایک اور نئی پارٹی بھی سیکولر پارٹیوں کے صف میں آ کھڑی ہوئی جو سرخیوں میں تو نہیں ہے لیکن اپنے منشور کے لحاظ سے سرخیوں میں آ جائے گی۔

یہ پارٹی ہے جن سنگھرش دل۔ اس پارٹی کے بانی ہیں ماہرِ اقتصادیات، سابق آئی ایس افسر اور ورلڈ بینک کے سابق ڈائریکٹر گلریز ھُدیٰ۔

جن ادھیکار پارٹی کے رہنما پپو یادو نے بھی کورونا وبا اور لاک ڈاؤن کے درمیان کافی محنت کی ہے اور وہ بھی اپنے امیدوار اتار رہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ بہار کے ووٹرز ان کی کتنی ہمنوائی کرتے ہیں اور انہیں کتنی سیٹیں مل پاتی ہیں لیکن ان کی 'تنہا چلو پالیسی' ان کے لیے کیا گُل کھلائی گی کہنا قبل از وقت ہوگا۔

مزید پڑھیں:خود کفیل بہار یا دس لاکھ روزگار، نوجواں کا اعتماد کس پر؟

'اقتدار میں کوئی بھی آئے ہمیں تو مزدوری ہی کرنی ہے'

'سفری اخراجات کے بدلے میں ووٹ کے لیے تیار مہاجر مزدور'

بہار انتخابات پر مہاجر مزدوروں کا ردعمل

اتنی ساری سیکولر پارٹیوں کے میدان میں آنے کے بعد سیکولر ووٹوں کی تقسیم کے خدشے سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ 15 سال بنام 15 سال ۔ یعنی کُشاسن بنام سُشاسن پر ووٹروں کو تقسیم کرنے کا عمل بھی شروع ہوچکا ہے۔ شہری علاقوں میں جہاں این ڈی اے کو سبقت ملتی نظر آ رہی ہے تو وہیں دیہی علاقوں میں ووٹرز تقسیم ہیں۔

سیلاب متاثرین جے ڈی یو کو اقتدار سے بے دخل کرنے پر تُلے ہوئے ہیں تو مسلمانوں میں بھی جے ڈی یو - بی جے پی کے تئیں ناراضگی دیکھی جارہی ہے۔

قومی سطح پر بی جے پی حکومت کی طرف سے مخصوص فرقے سے متعلق احکامات نے مسلمانوں میں سرد مہری تو پیدا کردی ہے لیکن نتیش کمار کے حالیہ فیصلوں کی وجہ سے جے ڈی یو سے ناراضگی بھی کچھ کم نہیں ہے۔

اردو ٹیچرس کی تقرری کے معاملے میں اردو داں طبقہ نتیش کمار سے ناراض ہے۔ نتیش راج میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اردو کو دوسری مادری زبان کے زمرے سے خارج کرنے کی خفیہ کوشش ہوئی ہے۔ یہ نہ صرف جذباتی معاملہ ہے بلکہ مستقبل کے بارے میں بھی مسلمان اندیشوں کا شکار ہے۔

بہار اسمبلی انتخابات 2020 اور مسلمان

سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس پر فی الوقت کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا ۔عوام کو بنیادی ایشوز سے توجہ ہٹانے کے لیے بھی سیاسی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ جذباتی نعروں کی گونج بھی سنی جا رہی ہے۔ اقلیتوں کو حاشیے پر لانے اور خاص کر مسلمانوں میں قیادت کے بحران کو مزید بڑا کرنے میں ہر سیاسی پارٹی پیش پیش ہے۔

سیکولر پارٹیوں نے بھی اس بار وہی کیا جس کا خدشہ تھا۔ 17 فیصد مسلم آبادی والی ریاست میں اتنے ہی مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیے گئے ہیں جنہیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے اور اس سے ان پارٹیوں کی منشا صاف ظاہر ہو جاتی ہے۔

ہر سیاسی پارٹی نے داغدار اور بدعنوان سیاست دانوں کو ٹکٹ دیا ہے اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہیں صرف جیت سے مطلب ہے۔ انہیں اپنی سیٹوں میں اضافہ کرنا ہے خواہ امیدوار جیسا بھی ہو۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی بھی ان سیاسی پارٹیوں کو پرواہ نہیں ہے۔

جہاں تک مسلم اقلیتوں کا سوال ہے کہ وہ 2020کے بہار اسمبلی الیکشن میں کن ایشوز پر ووٹ کر رہے ہیں ، اس حوالے سے ایک اہم بات تو ذہن میں رہنی چاہئے کہ مسلمانوں نے آزادی کے بعد سے آج تک کسی بھی ایسے ایشو پر ووٹ نہیں کیا ہے جس کا تعلق خالص مسلمانوں سے ہو، مسلم ووٹر سب کا بھلا چاہتا ہے۔ ان کے پیش نظر وہی نکات ہیں جو تمام طبقات کے لیے ضروری ہیں۔ روزگار، تعلیم، صحت، سڑک، بجلی، پانی، تحفظ اور مساوات ہی ان کا بنیادی نقطہ نظر رہا ہے۔

بہرحال مسلم اقلیتوں کے بڑے طبقے نے کبھی بھی الگ خیمہ زن ہونے کی پالیسی نہیں اپنائی بلکہ سبھوں کے ساتھ جینے اور ساتھ چلنے کی ہی پالیسی اپنائی اور ملک وقوم کی بھلائی کا ہمیشہ خیال رکھا۔

بہار میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پس منظر میں اگر دیکھیں تو اس ماحول میں بھی دیگر پارٹیاں مسلم ووٹرز پر ہی نگاہ جمائے ہوئے ہیں۔

برسر اقتدار این ڈی اے میں جے ڈی یو کا جھکاؤ بھی مسلم ووٹوں کی طرف شروع سے رہا ہے اور آج بھی ہے۔ کام اور سنجیدہ مزاجی کی وجہ سے اس کا سیدھا فائدہ بھی ماضی قریب کے الیکشنز میں اسے ملتا رہا ہے۔ مہا گٹھ بندھن میں چاہے آرجے ڈی ہو یا کانگریس، ان سب کا تو وجود ہی مسلم ووٹوں پر ٹکا رہا ہے اسی لئے جب جب انہوں نے چالاکی یا پیٹھ دکھانے کی پالیسی اپنائی، مسلم ووٹروں نے انہیں ایسا انگوٹھا دکھایا کہ دونوں ہی پارٹیاں اقتدار سے دور ہوتی چلی گئیں۔

کانگریس نے احسان جتلا کر مسلمانوں کا ووٹ حاصل کیا تو آر جے ڈی نے خوف دکھا کر مسلمانوں کا ووٹ لیا۔ اب اس بار مسلم ووٹرز کیا کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرپائیں گے، ان کا رجحان کیا ہوگا اور وہ کن امیدواروں کو ایوان قانون سازیہ میں پہنچائیں گے، یہ دیکھنا کافی دلچسپ ہوگا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details