خاندانی ذرائع کے مطابق ان کی نماز جنازہ نور ی مسجد کے احاطہ میں آج بعد نماز ظہر مولانا علاء الدین نے پڑھائی۔ اس کے بعد شاہ گنج قبرستان میں سپرد خاک کردی گئیں۔
ڈاکٹر اشرف جہاں کا تعلق ایک ایسے خانوادے سے تھا جو علمی میدان میں یکتائے روزگار اور معاشرتی زندگی میں معزز تسلیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے پٹنہ یونیورسیٹی سے ایم اے میں امتیازی کامیابی حاصل کی۔ بعد میں انہوں نے یوجی سی کی جونئیر فیلو شپ حاصل کی اور اس طرح ڈاکٹریٹ کا سفر بڑی آسانی سے طے کر لیا۔ حصول تعلیم کے بعد انکی تقرری گردنی باغ گرلس کالج پٹنہ میں لکچرر کے عہدہ پر ہوئی اور یہاں انہوں نے 1981ء سے 1987ء تک درس و تدریس کا کام انجام دیا۔ بعد ازاں وہ پٹنہ کالج میں اکتوبر 1987ء سے درس و تدریس کے فرائض انجام دئے اور پٹنہ یونیورسیٹی کے شعبہ اردو کی صدر شعبہ بھی رہ چکی تھیں۔
ان کے افسانوی سفر کا آغاز ان کے دور طالبعلمی سے ہوتا ہے تب سے زندگی کے آخر ی سفر تک ان کا یہ سفر کامیابی کا زینہ طئے کرتے ہوئے بلندی کی حدوں تک پہنچا۔ انکی پہلا افسانو ی مجموعہ" شناخت" ہے۔ "اکیسویں صدی کی نرملا" اور" اگر میں نا ہوتی "ان کا دیگر افسانوی مجموعے ہیں۔ اردو افسانے کا بدلتا مزاج، اردو ناول کے آغاز میں دبستان عظیم آباد کا حصہ، شاد عظیم آبادی کا ناول صورۃ الخیال عرف ولایتی کی آپ بیتی کا مختصر ایڈیشن پر انکے تنقیدی مضامین بھی شائع ہوئے۔ ان کا ایک انشائیہ "ہم اردو کے ٹیچر ہوئے "بھی کافی مقبول ہوا۔