اردو

urdu

ETV Bharat / city

پاسوان کی موت کے غم میں نکلنے والے آنسوؤں سے بگڑے گا جے ڈی (یو) کا کھیل؟

سیاسی مبصرین کا خیال ہے رام ولاس پاسوان کی موت کے بعد بہار اسمبلی انتخابات میں ہمدردی کی لہر پیدا ہوسکتی ہے اور اس لہر سے نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یو کو سب سے زیادہ نقصان ہوسکتا ہے۔

Bihar elections 2020: How Ram Vilas Paswan death may impact poll results
Bihar elections 2020: How Ram Vilas Paswan death may impact poll results

By

Published : Oct 9, 2020, 9:17 PM IST

Updated : Oct 9, 2020, 9:30 PM IST

بہار اسمبلی انتخابات سے عین قبل چراغ پاسوان نے بہار میں این ڈی اے سے رشتہ توڑ لیا۔ اسی کے ساتھ چراغ پاسوان نے یہ بھی واضح کیا کہ تھا کہ وہ جے ڈی یو کے ہر امیدوار کے خلاف اپنی پارٹی سے امیدوار کھڑا کریں گے۔ اسی دوران مرکزی وزیر اور چراغ پاسوان کے والد رام ولاس پاسوان کی موت ہوگئی۔ انتخابی ہلچل کے دوران رام ولاس پاسوان کے انتقال سے عوام میں ان کے پارٹی کے تئیں ہمدردی کی لہر پیدا کرسکتی ہے اور بہت سی نشستوں پر نتیش کمار کو نقصان ہوسکتا ہے۔ یہ قیاس کیا جارہا ہے کہ اس سے سب سے زیادہ نقصان جے ڈی یو کو ہوگا۔

عوام کے درمیان ہمدردی کی لہر

بہار کے 5 اضلاع میں دلت رائے دہندگان اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان اضلاع میں رام ولاس پاسوان کے انتقال کے بعد لوگوں میں ہمدردی کی لہر دوڑ گئی ہے، یہ خیال کیا جارہا ہے کہ ایل جے پی کو اس سے براہ راست فائدہ ہوسکتا ہے۔

اگر ہم پورے بہار کی بات کریں تو دلت رائے دہندگان کسی بھی پارٹی کی ہار جیت طے کرسکتے ہیں۔ بہار میں دلت اور پسماندہ رائے دہندوں کی آبادی کا تناسب تقریباً 16 فیصد ہے۔ ایل جے پی نے 2005 کے اسمبلی انتخابات میں نتیش کی حمایت نہیں کی تھی۔ اس سے ناراض نتیش کمار نے دلت ووٹوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے 22 میں سے 21 دلت برادری کو مہادلت قرار دے دیا جس میں انہوں نے پاسوان برادری کو شامل نہیں کیا۔ اس کے بعد بہار میں مہادلتوں کی آبادی تقریباً 10 فیصد تک بڑھ گئی جبکہ پاسوان ووٹرز کی تعداد ساڑھے چار فیصد رہ گئی۔

نتیش کمار کے اس ماسٹر اسٹروک نے پاسوان پر اثر دکھایا اور وہ خود 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں شکست کھا گئے۔ اس کے بعد پاسوان 2014 میں این ڈی اے میں شامل ہوگئے جبکہ نتیش کمار این ڈی اے سے باہر ہوگئے۔ تاہم 2018 میں نتیش اور رام ولاس پاسوان نے ایک بار پھر مفاہمت کی جس کے بعد پاسوان برادری کو بھی مہادلت کی فہرست میں شامل کیا گیا۔

اب رام ولاس پاسوان کی موت کے ساتھ 5 اضلاع ایسے ہیں جہاں ہمدردی کی لہر دیکھی جاسکتی ہے۔ جن میں نالندہ، جموئی، سمستی پور، ویشالی اور کھگڑیا میں مہادلت ووٹرز کا غلبہ ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کے اعلی ذات کے لوگ بھی پاسوان کو ناپسند نہیں کرتے۔

نالندہ کے بارے میں بات کریں تو یہ نتیش کمار کا آبائی ضلع ہے۔ اس لوک سبھا حلقہ میں اسمبلی کی 7 سیٹیں ہیں۔ نالندہ میں مہادلتوں کی آبادی ساڑھے چار لاکھ کے قریب ہے۔ تاہم جے ڈی یو کے پاس اسمبلی میں 7 میں سے 6 سیٹیں ہیں جبکہ راجگیر (ایس سی) نشست ہے۔ چراغ نے ان تمام سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسی صورتحال میں نتیش کمار کا کھیل یہاں خراب ہوسکتا ہے۔

اسی وقت جموئی لوک سبھا حلقہ بھی ایک ( ریزو) سیٹ ہے۔ چراغ پاسوان رکن اسمبلی ہیں۔ اس لوک سبھا حلقہ میں 6 اسمبلی کی سیٹیں ہیں جن میں سے 4 جموئی ضلع میں ہیں۔ جموئی ضلع میں جے ڈی یو کی 2 نشستیں ہیں۔ جھاجھا اور چکائی۔ لیکن اس بار چراغ نے دونوں سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ رویندر یادو کو جھاجھا اور چکائی سے سنجے کمار منڈل کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ دلت ووٹوں کے ساتھ ہی چراغ نے یہاں کی پسماندہ برادری کے ووٹز کو لبھانے کی کوشش کی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہاں ہمدردی کی لہر کام کرے گی جس کا براہ راست اثر جے ڈی یو پر پڑسکتا ہے۔

سمستی پور لوک سبھا حلقہ میں مہادلت ووٹرز کی تعداد ساڑھے تین لاکھ کے قریب ہے۔ یہاں سے رام لاس پاسوان کے بھتیجے پرنس راج رکن پارلیمان ہیں۔ اس لوک سبھا حلقہ میں اسمبلی کی 6 نشستیں ہیں۔ کلیان پور اور روسڑا (ریزو) نشستیں ہیں۔ ان دونوں سیٹوں پر مہادلت ووٹز کافی اہمیت رکھتے ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں کلیان پور، جے ڈی یو کے کھاتے میں گیا تھا۔ اس بار ایل جے پی نے یہاں بھی امیدوار کھڑا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایسی صورتحال میں جے ڈی یو کو نقصان پہنچنا یقینی ہے۔ جبکہ روسڑا بی جے پی کے کھاتے میں ہے، جس کے خلاف ایل جے پی نے کوئی امیدوار نہیں کھڑا کیا ہے۔

کھگڑیا لوک سبھا سیٹ پر بھی ایل جے پی کا قبضہ ہے۔ یہ اس لیے بھی خاص ہے کہ رام ولاس پاسوان نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کھگڑیا سے ہی کیا تھا۔ پہلی بار وہ اس سیٹ سے رکن اسمبلی بنے تھے۔ دلت ووٹرز یہاں چار لاکھ کے قریب ہیں۔ اس حلقہ میں اسمبلی کی 6 نشستیں ہیں جن میں سمری بختیار پور، حسن پور، اولی، کھگڑیا، بیلدور اور پربتہ ہیں۔ الولی (ریزو) نشست ہے جہاں سے جے ڈی یو نے امیدوار کھڑا کیا ہے۔ جبکہ ایل جے پی نے بھی اس نشست سے امیدوار کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر ہمدردی کی لہر یہاں کام کرتی ہے تو پھر یہ جے ڈی یو کا براہ راست نقصان ہوگا۔

رام لاس پاسوان خود حاجی پور پارلیمانی حلقہ سے الیکشن لڑ چکے ہیں۔ حاجی پور میں ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ دلت ووٹرز ہیں۔ اس پارلیمانی حلقے میں اسمبلی کی 7 نشستیں ہیں۔ جس میں حاجی پور، مہوا، راجا پاکر، جنداہا، مہنار، پتے پور اور راگھو پور اسمبلی حلقے شامل ہیں۔ راجا پاکر (ریزو) نشست ہے اور یہ جے ڈی یو کے کھاتے میں ہے۔ ایل جے پی نے اس نشست پر امیدوار کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسی صورتحال میں یہاں جے ڈی یو کو نقصان پہنچنے کا پورا امکان ہے، اسی طرح دوسری نشستوں پر بھی دلت رائے دہندگان کا اثر و رسوخ ہے۔

رام ولاس پاسوان کی موت کے بعد اب ایسی صورتحال بن گئی ہے کہ کوئی بھی اپوزیشن پارٹی کھلے عام رام ولاس پاسوان کا نام نہیں لے سکتی۔ چراغ پاسوان بھی اس انتخاب میں ہمدردی کارڈ کھیلنے کی کوشش کریں گے۔ یہ ممکن ہے کہ نتیش کمار بھی براہ راست حملہ کرنے سے بچیں۔ ایسی صورتحال میں چراغ پاسوان اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس انتخاب میں چراغ نے 42 میں سے 18 نشستوں کے لیے اعلی ذاتوں کے امیدواروں کو نامزد کیا ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے دلتوں کے ساتھ ساتھ اعلی ذات کے لوگوں کو بھی اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی ہے۔ خیر یہ ساری باتیں تو محض قیاسات پر مبنی ہیں لیکن اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو چراغ پاسوان کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہوگا جبکہ نتیش کمار کا کیا بنے گا یہ تو مستقبل میں ہی طے ہوپائے گا۔

Last Updated : Oct 9, 2020, 9:30 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details