مسلمانوں کی تعلیمی و معاشی بدحالی پر سچر کمیٹی Sachchar Committee نے جو رپورٹ پیش کی تھی وہ حکومت اور عوام کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی تھی۔ رپورٹ میں مسلمانوں کی ناخواندگی کی شرح سب سے زیادہ بتاتے ہوئے تعلیم پر توجہ دینے کی بات کی گئی تھی۔
بہار میں خطہ سیمانچل سب سے تعلیمی پسماندگی Educational backwardness in Semanchal والا خطہ مانا جاتا ہے۔ 2014 کے پارلیمانی انتخاب سے قبل پورے سیمانچل میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمان مرحوم مولانا اسرار الحق قاسمی کی قیادت میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کشن گنج سینٹر AMU Center Kishanganj کے لئے زبردست تحریک چلائی گئی تھی۔
اس وقت کی مرکز میں کانگریس کی منموہن سنگھ کی حکومت نے کشن گنج میں سینٹر کھولنے کے لیے 136 کروڑ روپے کی منظوری دی تھی، ساتھ ہی ریاستی حکومت سے سینٹر کھولنے کے لیے زمین مہیا کرانے کی گزارش کی تھی۔
نتیش کمار حکومت نے کشن گنج اسمبلی حلقہ کے چکلا گاؤں میں 224 ایکڑ زمین کی فراہمی بھی کرا دی جس پر سینٹر کا قیام عمل میں آنا تھا، اس وقت زمین کی گھیرا بندی و دیگر کاموں کے لئے دس کروڑ روپے بھی الاٹ کئے گئے مگر 2014 میں اقتدار میں تبدیلی آئی۔
نریندر مودی کی حکومت بنی، اس کے بعد سینٹر کھولنے کے لئے کانگریس حکومت کے ذریعہ منظور شدہ رقم کو کبھی ریلیز نہیں کیا گیا جس سے عمارت کی تعمیر کا کام بڑھایا جا سکے۔
آٹھ سال گزر جانے کے بعد آج بھی اے ایم یو سینٹر AMU Center Kishanganj کے لئے مختص 224 ایکڑ زمین خالی پڑی ہوئی ہے اور اپنی بے بسی پر آنسو بہا رہی ہے، خالی زمین مودی حکومت کی جانب ٹک ٹکی باندھےدیکھ رہی ہے جو برسوں سے بے توجہی کا شکار ہے۔
عمارت بننے سے قبل فوری طور پر وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے 2013 میں کشن گنج کے حلیم چوک میں واقع دو اقلیتی رہائش ہاسٹل سینٹر کو دئے تاکہ اس میں طلباء رہ سکیں، آٹھ سال بعد بھی اے ایم یو کشن گنج سینٹر انہی دو اقلیتی ہاسٹلز میں چل رہا ہے اور یونیورسٹی کے طلباء ایم بی اے و بی ایڈ کی پڑھائی کر رہے ہیں۔
کانگریس کے رکن اسمبلی شکیل احمد خان نے موجودہ مرکزی حکومت پر کشن گنج میں اے ایم یو سینٹر کو نظر انداز کئے جانے کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کانگریس حکومت نے رقم منظور کیا تھا اسے جاری کرنا مودی حکومت کی ذمہ داری تھی مگر ایک خاص قوم کے تئیں تعصب کی بنیاد پر سینٹر کے لئے رقم جاری نہیں کی گئیں۔